fbpx
منتخب کالم

   گھر والدین اور اولاد۔۔۔۔/ سید امجد کاظمی

گھر اور مکان کہنے کو تو سب ایک ہی ہیں، لیکن مکان کے مکین شاید کچھ عرصے کے لئے ہوتے ہیں جیسے کرایہ دار وغیرہ تاہم گھر ہمیشہ افراد کے باہمی پیار و محبت کا عکاس ہوتا ہے، جہاں والدین اور اولاد مل کر خوشیاں دیکھتے ہیں اور گھر میں مناتے ہیں۔ ہم نے اکثر گھروں میں دیکھاہے کہ بیٹے کا رویہ شادی کے بعد بدل جاتا ہے یا یوں کہیں کہ آنے والی بہو ماں باپ سے دوریاں پیدا کرنے میں وہ کردار ادا کرتی ہے جس کی شاید وہ تربیت یافتہ ہوتی ہے، ویسے تو ہر گھر کی کوئی نا کوئی کہانی ہوتی ہے، لیکن اگر بچے اور والدین مل کر سمجھداری کا مظاہرہ کریں تو پھر حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔عام طور پر دیکھاگیا ہے کہ بیوی کی وفات کے بعد جب سسر گھر میں اکیلا رہ جائے تو اسے آنے والی بہو بوجھ تصور کرتی ہے اور کھانے پینے کی چیزوں میں بھی کمی کی جاتی ہے جس کاعام طور پر بیٹے کو علم نہیں ہوتا،کیونکہ وہ اپنی نوکری یا کاروبار میں مصروف ہوتاہے اور دوسری طرف ایسے حالات میں سسر یعنی والد بھی بہو کی شکایت لگانے سے پرہیز کرتا ہے تا کہ گھر میں بد مزگی پیدا نا ہو سکے اور کہیں بیٹا ان سے دور نا ہو جائے۔ اپنے قارئین کے لئے ایک واقعہ بیان کرتا چلوں جو یہ ثابت کرے گا کہ بیٹا جتنا بھی مصروف ہو اسے اپنے والدین کا خیال رکھتے ہوئے بیوی کی چالوں پر نظر رکھنی چاہئے تا کہ والدین یا ان میں سے کوئی ایک جو حیات ہے اس کی عزت نفس بحال رکھی جائے۔ ہوا یوں کہ ایک آدمی کی بیوی چالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئی جب اس کے دوستوں اور رشتہ داروں نے دوسری شادی کا مشورہ دیا تو اس نے جواب دیا کہ اس کی بیوی کا سب سے بڑا تحفہ اس  کا بیٹا ہے اور وہ اس کے سہارے اب اپنی باقی زندگی گزارے گا۔جب بیٹا بڑا ہوا تو اس نے اپنے تمام کاروبار کی ذمہ داریاں بیٹے کو سونپ دیں اور پھر اس کی شادی کر دی۔

پھر ایک وقت آیا کہ بیٹا کاروبار اور بیوی کے معاملات میں مصروف ہونے لگا جس سے اس آدمی کو تنہائی کا احساس ہونے لگا۔ایک دن وہ دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا جب بیٹا بھی دفتر سے آیا اور ہاتھ دھو کر کھانے کے لئے میز پر آنے والا تھا کہ بیٹے نے سنا کہ والد نے کھانے کے بعد دہی مانگی تو بیوی نے جواب دیا کہ آج گھر میں دہی نہیں ہے۔کھانا کھانے کے بعد والد باہر چہل قدمی کے لئے نکل گیا۔کچھ دیر بعد بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تو کھانے کے برتن میں دہی موجود تھا، لیکن بیٹے نے بغیر کسی ردعمل کے کھانا کھایا اور پھر دفتر چلا گیا۔کچھ دنوں کے بعد بیٹے نے اپنے والد سے کہا، ”آج آپ کو عدالت جانا ہے اور آپ کی شادی ہو رہی ہے!“ والد نے حیرت سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور کہا، ”بیٹا! مجھے اب شادی کی ضرورت نہیں ہے۔ بیٹے نے جواب دیا کہ“بابا، میں اپنی ماں کو آپ کے لیے نہیں لا رہا اور نا ہی ایک ساس کو اپنی بیوی کے لئے لا رہا ہوں،بلکہ میں صرف آپ کے لئے دہی کا انتظام کر رہا ہوں۔ کل سے میں آپ کی بہو کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہوں گا اور آپ کے دفتر میں ایک ملازم کی حیثیت سے کام کروں گا تاکہ آپ کی بہو دہی کی قیمت جان سکے۔”یہ واقعہ ہر گھر کے بیٹوں اور اولاد کے لئے ایک ایسا سبق ہے کہ والدین کی عظمت کو قائم رکھنے میں بہو کی بھی عزت ہے اور معاشرے میں ایک گھر کو گھر کہا جا سکتا ہے ورنہ سیمنٹ ریت اوراینٹوں سے بنے گھر نہیں مکان ہی کہلاتے ہیں جہاں پر افراد کچھ عرصے کے لئے قیام کرتے ہوں۔فرماں بردار بیٹے کے لئے ایک گولڈن ٹِپ یہ ہے کہ وہ گھر کی پراپرٹی اور گھر کا روزمرہ کا زیادہ ترخرچہ والد کی جیب میں رہنے دے تاکہ بہو کو یہ باور رہے کہ عیاشی کی گاڑی کا پٹرول صرف سسر کے پٹرول پمپ سے ہی مِل سکتا ہے اور بیٹے پر یہ لازم ہے کہ وہ محبت کے اصول کے تحت یہ قانون اپنی زوجہ کے ضرور گوشوار کرے کہ دیکھو زندگی میں کبھی اپنے شوہر اور اپنے سسر کے درمیان موازنہ کا کھیل کھیلنے کی کوشش مت کرنا وگرنہ اس کھیل میں تمہاری ہار یقینی ہے۔اگر اولاد والدین کی خود بھی قدر کریں اور اپنی بیوی سے بھی کروائیں تو  والدین ہمارے لئے تحفظ کا احساس اور اے ٹی ایم کارڈز ہو سکتے ہیں۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے