شور مچا ہوا ہے معیشت بہتر ہو گئی ہے، سٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید کمی کرتے ہوئے اسے ساڑھے سترہ فیصد کر دیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں معیشت کو چارچاند لگیں گے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو 25ستمبر کے شیڈول میں شامل کرلیا ہے۔ پٹرول کے بارے میں کہا جا رہا ہے اس میں نمایاں کمی کی جا رہی ہے۔ بلے جی بلے، یہ تو کمال ہو گیا مگر زمین پر آکر دیکھیں تو حالات دگرگوں سے دگرگوں تر ہو چکے ہیں، مہنگائی میں ایک دھیلے کی کمی نہیں آئی اور نہ آنے کا امکان ہے۔ معیشت کی بہتری کا حکومتی پیمانہ اور ہے اور عوام کا پیمانہ اور۔ حکومت اسٹاک ایکسچینج کی بلندی، شرح سود میں کمی اور پٹرول کی قیمت میں ردو بدل کو معیشت کی بہتری کا معیار سمجھتی ہے،جبکہ عوام کے نزدیک معیشت اس وقت بہتر ہوتی ہے جب ان کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ قوت خرید کے لحاظ سے عوام زمین سے لگ چکے ہیں،اچھی بھلی تنخواہوں والے روتے نظر آتے ہیں۔ بعض دوستوں نے تو اب یہ شکایت بھی کی ہے کسی کے گھر جائیں تو وہ ملتا نہیں۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ایک یہ کہ مہمانوں کی خاطر مدارت کے لئے گھر میں سامان دستیاب نہیں اور دوسرا یہ خدشہ کہ کہیں کچھ ادھار نہ مانگ لیں۔ محکمہ شماریات نجانے کس دنیا کی خبر دیتا ہے، مہنگائی میں کمی کے اعداد و شمار ایسے جاری کر دیتا ہے جیسے اس نے اس حوالے سے آن آف کا بٹن لگا رکھا ہو، جتنے فیصد مہنگائی بڑھنے کی خبر دی جاتی ہے،اس سے کئی گنا زیادہ قیمتیں بڑھ چکی ہوتی ہیں۔ اب وطن عزیز میں کوئی ایسا میکنزم تو ہے نہیں کہ قیمتیں خود بخود نیچے آ جائیں، حکومت کا پٹرول پر اختیار ہے، اسے کم یا زیادہ کر دیتی ہے لیکن صرف پٹرول ہی تو سب کچھ نہیں۔ باقی اشیاء کی قیمتیں کیسے کمی کے تناسب سے واپس لانی ہیں، اس بارے میں کوئی لائحہ عمل بنایا جانا چاہیے مگر ایسا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ میں صرف ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی مثال دیتا ہوں۔ ان کی قیمتوں میں سو دو سو نہیں بلکہ کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ہر پندرہ دن بعد قیمتیں بڑھانے کا ایک ایسا مرض ادویات ساز کمپنیوں کو لاحق ہوا کہ وہ اب تک نہیں جارہا۔ اس کی وجہ بلند شرح سود، عمومی مہنگائی اور خام مال کی درآمد میں رکاوٹ کو بیان کیا جاتا رہا۔ کیا محکمہ صحت یا ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس ایسا کوئی طریقہ ہے، اس کے پاس اس حوالے سے اعداد و شمار ہیں کہ جس بنیاد پر وہ ادویات کو مہنگائی میں کمی کے تناسب سے سستا کرنے کا حکم جاری کر سکے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھریہ باتیں کاغذی ہی ثابت ہوں گی کہ مہنگائی کم ہورہی ہے یا معیشت کو چار چاند لگ رہے ہیں۔ ادویات کی قیمتیں تو ایک مثال ہے وگرنہ ہر شے کی قیمتیں گزشتہ دو برسوں میں ایسے بڑھی ہیں جیسے انہیں واقعی پر لگ گئے ہوں۔ کوئی اگر یہ سمجھتا ہے پاکستان میں معیشت خود کار نظام کے تحت کام کرتی ہے اور قیمتیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں تو وہ خواب و خیال کی دنیا میں رہتا ہے۔ یہاں صرف قیمتیں اوپر جاتی ہیں اور پھر کبھی نیچے نہیں آتیں، پھر کوئی بتا سکتا ہے جب قیمتوں نے بلند سطح پر برقرار رہنا ہے تو عوام کو مہنگائی میں کمی کا فائدہ کیسے مل سکتا ہے؟
کسی بھی ملک کی معیشت اس وقت بہتر ہوتی ہے جب عوام کی زندگی بہتر ہو۔ وگرنہ صرف الفاظ کا جادو ہوتا ہے،جس سے بہتری کے دعوے کئے جاتے ہیں بہت سے ایسے عوامل ہیں جو عوام کو معاشی طور پر رگڑے ہوئے ہیں۔ بجٹ میں جو بھاری ٹیکس لگائے گئے، خاطر طور تنخواہ دار طبقے کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا اس نے ان کی زندگی کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے، آپ ان دو برسوں میں بڑھے ہوئے ٹیکسوں کو ہی دیکھیں تو ان کا بوجھ عوام کے محدود وسائل پر اتنا زیادہ پڑا ہے کہ ان کی رہی سہی قوتِ خرید بھی جاتی رہی ہے۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے وفاقی بجٹ میں جو ٹیکس لگائے جاتے ہیں، وہی صرف ٹیکس ہیں، باقی کسی ٹیکس کا عوام پر اثر نہیں ہوتا۔ حالانکہ خاص طور پر پنجاب میں ٹیکسوں کی شرح اور سروسز کے معاوضے میں اتنا زیادہ اضافہ کیا گیا ہے کہ محدود وسائل رکھنے والوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں، مثلاً محسن نقوی کے دور حکومت میں واسا کے بل کئی سو فیصد بڑھا دیئے گئے۔ اب بعض گھروں میں سوئی گیس کا بل کم آتا ہے اور واسا کا بل زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح کوڑا ٹیکس بھی لگایا گیا ہے حالانکہ ان محکموں کے لئے بجٹ میں اربوں روپے اسی مقصد کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ کورٹ فیس میں کئی گنا اضافہ کرکے عوام کے لئے انصاف کا حصول مشکل بنایا گیا۔ ڈرائیونگ لائسنس فیس سینکڑوں سے بڑھا کے ہزاروں کر دی گئی، جس صوبے میں صرف چند فیصد لوگ ڈرائیونگ لائسنس رکھتے