fbpx
منتخب کالم

   وزیراعظم کا کام جنازے پڑھنا نہیں / زیبا شہزاد


 پنجاب اور سندھ کی درمیانی حدود میں کچے کے ڈاکوؤں نے وختہ ڈالا ہوا ہے۔یہ ڈاکو عام شہریوں کو کسی نہ کسی طریقے سے  اغوا کر لیتے ہیں تو کبھی پولیس کے جوانوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ پولیس کے جوانوں نے عام شہریوں کی کیا حفاظت کرنی  یہ تو خود ڈاکوؤں کے شر سے محفوظ نہیں۔ ڈاکوؤں کے پاس راکٹ لانچر ہیں اور پولیس کے دستوں کے پاس چلانے کے لئے وافر اسلحہ تک نہیں ہوتا۔ 

منشیات کا کاروبار کرنے والوں نے الگ زندگی اجیرن کی ہوئی ہے ہر گلی محلے میں منشیات ٹافیوں کی طرح بکتی ہے۔ دس بارہ سال کے بچے بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں رہے۔ منشیات فروش انتہائی متحرک اور بااثر ہیں۔ اور قانون کے رکھوالوں میں اتنی جرأت نہیں کہ ان پہ ہاتھ ڈال سکیں۔

کراچی کے حالات دیکھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ادھر کئی دہائیوں سے لٹیروں کا راج ہے۔ جو دن دیہاڑے پستول دکھا کر سب لوٹ کے لے جاتے ہیں۔ مزاحمت کرنے پر جان بھی جاتی ہے اور مال بھی۔ مائیں روتی پیٹتی رہ جاتی ہیں باپ جوان لاشے اٹھاتے نہیں تھکتے۔ کوئی پرسان حال نہیں، اور وارداتیں ہیں کہ بڑھتی جاتی ہیں۔ 

 سب سے زیادہ افسوس ناک صورتحال بلوچستان کی ہے۔ وہاں جو کچھ ہورہا اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔آئے دن دہشتگرد حملے ہوتے ہیں۔ مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر باقاعدہ شناخت کر کے مارا جاتا ہے، تو کبھی فوجی کیمپوں پر حملہ کیا جاتا ہے۔ فورسز کی طرف سے  اسے علیحدگی پسند تحریک کی کاروائیاں کہا جاتا ہے تو کبھی انھیں اس میں بیرونی قوتوں کی سازش نظر آتی ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں بے گناہ لوگ اور فوجی جوان شہید ہوچکے۔ دہائیاں گذر چکیں لیکن ان دہشت گردوں پہ قابا نہیں پایا جا سکا۔  

مرشد ہماری فوج کیا لڑتی دشمنوں سے 

اسے تو اپنوں ہی سے فرصت نہیں ملی

شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب ادھر سے خیر کی خبر آئی ہو۔ وہاں کے لوگ غائب ہو جانا بھی معمول کی بات ہے جن کا پھر کبھی کاسراغ نہیں ملتا۔ دہشت گرد حملے یہاں روٹین کی ہے۔ اگر حملے بڑھ جائیں تو وزیر اعظم اور اعلٰی عہدیداران دکھ کا اظہار کرنے کے لئے ٹی وی پہ آکر مذمتی بیان دے دیتے ہیں۔ زیادہ نقصان ہو جائے تو جنازے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ نمبرنگ کی ضرورت ہو تو پھر وزیراعظم صاحب شہدا کی میت کو کاندھا دینے پہنچ جاتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے جنازے پڑھنے اور قبر پر مٹی ڈالنے سے ان کی ذمہ داری پوری ہوگئی ہے۔ نہیں صاحب ایسا نہیں ہے۔ وزیراعظم کا کام جنازے پڑھنا نہیں قوم کے مسائل حل کرنا ہے۔ اور مسائل حل کرنے سے ختم ہوتے ہیں جنازے پڑھنے سے نہیں۔ وزیراعظم کی ذمہ داری  ملک کو بہتر طریقے سے چلانا ہے۔ آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرض لیکر قوم کو مبارک دینا یا دہشت گرد حملوں کی مذمت کرنا نہیں۔ وزیراعظم صاحب مرجانے والوں کو سلامی اور بچ جانے والوں کو پرسہ نہیں چاہیئے۔ اس قوم کو تحفظ چاہیئے، امن چاہیئے، روزگار چاہیئے۔ لیکن جس طرح سب ذمہ دار عہدوں کے افسر  بشمول وزیر اعظم شہدا کے جنازے کی نماز پڑھ کر ثواب دارین حاصل کرنے جاتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ انھیں صرف اسی کام کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ 

  ”پاکستان ایٹمی قوت ہے دشمن اس کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا “جب کسی انتہائی ذمہ دار عہدیدار کا یہ بیان آتا ہے تو ہنسی نکل جاتی ہے۔ کہ جو سیکیورٹی ادارے ملک کے اندر چند کلو میٹر کے علاقے سے ڈاکوؤں کا صفایا نہ کر سکیں وہاں ایٹمی قوت ہونے کی بھڑک خاصی مضحکہ خیز لگتی ہے۔ اسے دشمن ملک کی شرافت کہیئے جو وہ بھرپور حملہ نہیں کرتا ورنہ پھر اس کے خلاف بھی حاکم وقت ٹی وی پہ آکر گہرے غم و غصے اور دکھ کا اظہار کر کے سمجھے گا کہ اس نے اپنا فرض پورا کر لیا۔ اب عوام جانے اور اس کانصیب۔ 




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے