کچھ لفظ ہوتے ہیں، جنہیں سیدھا پڑھا جائے یا اُلٹا ان کی لفظی اور معنوی ہیئت میں ٹکا فرق نہیں پڑتامثلاً ساس اور بلب وغیرہ۔ساس نے ساس ہی رہنا ہے چاہے آپ اسے دائیں سے بائیں پڑھیں یا بائیں سے دائیں اور یہی معاملہ بلب کا ہے۔ ہاں اگر فیوز ہو جائیں تو پھر زندگی میں ایسا اندھیر مچ جاتا ہے کہ الامان۔ لیکن میں ناک ہوں اور میرا معاملہ الگ ہے۔ اگر آپ مجھے بائیں سے دائیں پڑھیں گے تو میں کان بن جاؤں گی، لیکن کان بن کر بھی میرا معاملہ عدلیہ کا سا رہے گا، یعنی جس طرح عدلیہ سے عدل نہیں ہو پاتا اسی طرح میں اُلٹا لٹک کر کان بن بھی جاؤں تب بھی مجھ سے سننے کا کام نہ ہو پائے گا۔میں بقول یاراں ”صراط مستقیم“ کی علامت بھی ہوں۔ ارے برا مت منائیے بس وہ لمحہ یاد کیجیے جب آپ کو کہا گیا تھا ”ناک کی سیدھ میں جانا“۔ میں ہر حال میں سیدھی رہتی ہوں حتیٰ کہ کسی بھینگے انسان کی نگاہیں چلتے وقت بھلے ٹیڑھی ہوں، لیکن میں تب بھی سیدھی رہتی ہوں۔ سوتے وقت جب انسان کے حواس اربعہ آرام کر رہے ہوتے ہیں،تب بھی میں وہ ”خمسہ“ ہوں جو اس کے لئے سکون کی ”سانس“ کا ذریعہ بنی رہتی ہوں،لیکن قدر میری پھر بھی نہیں ہے۔کسی دن میں نے اس کی ”سانس“ کا واحد نقطہ کھڈے لائن لگایا تو اسے سمجھ لگ جانی ہے لیکن!
زندگی میری وجہ سے رواں دواں ہے، لیکن لوگ قدر نہیں کرتے۔ بعض مغرور کہتے ہیں کہ اجی تم اتنی بھی ضروری نہیں، سانس تو بذریعہ منہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ میں کہنا چاہتی ہوں کہ بالکل لیا جا سکتا ہے، لیکن ہر وقت منہ کھولے رکھنا اتنا ہی آسان ہے کیا؟ شک تو بھنبھناتی مکھیوں سے پوچھ لینا کبھی۔ سب کھابوں کا مدار مجھ پر ہے۔ زبان سے پہلے خوشبو یا بدبو مجھ تک ہی پہنچتی ہے اور پھر فیصلہ ہوتا ہے کہ اسے بذریعہ زبان معدے تک جانا چاہئے یا نہیں،لیکن پھر بھی جہان بھر کی گالیاں مجھے دی جاتی ہے۔ کوئی شرارتی ہو تو کہا جاتا ہے ”اس نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے“۔ برا کام انسان خود کرتا ہے، لیکن کٹنا مجھے پڑتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ”اس نے برادری میں ہماری ناک کٹوا دی“۔ کوئی کسی کو تنگ کر رہا ہو پھر بھی الزام مجھ پر کہ ”ابے ناک میں انگلی میں مت کر“۔ دشمنی اور انتقام کی آگ اپنی ٹھنڈی کی جاتی ہے، لیکن سہارا میرا لیا جاتا ہے کہ ”اس نے اسے ناکوں چنے چبوا دیے“۔ کسی کو چیلنج کرنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ ”میں تیری نک بھن دیاں گاں / یعنی میں تیری ناک توڑ دوں گا“۔ بھئی اس سب میں میرا کیا قصور ہے؟ آپ نے یقینا سنا ہو گا کہ ”سب کچھ تمہاری ناک کے نیچے ہوتا رہا“،حالانکہ کہنے والے بھی جانتے ہیں کہ میرے نیچے صرف ”کھانے“ والا کام ہوتا ہے، لیکن ”سب کچھ“ کا الزام مجھ پر دھرا جاتا ہے۔ ناک سے لکیریں نکلالنا یا نکلوانا، ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینا، غصے کا ناک پر دھرا رہنا، ناک بھوں چڑھانا اور نہ جانے کیا۔اردو ”ادب“ نہ ہوا بے ادب لوگوں کا اکھاڑا ہو گیا۔اتنی تہمتیں اور تعریف کا صرف ایک جملہ کہ ”کھڑی، خوب صورت اور ستواں ناک“۔
میرے بھی جڑواں بھائی ہوتے تو یوں بے عزت نہ ہوتی۔ درد ناک، الم ناک، غم ناک، خطر ناک،خوف ناک، ہول ناک، نم ناک، عبرت ناک،شرم ناک، حیرت ناک، اندوہ ناک اور افسوس ناک جیسے دور کے رشتہ دار بھی اتنے ظالم کہ بس مجھے ہی ”آگے“ لگایا ہوا ہے۔ چوبیس گھنٹے دھونکنی کی طرح چلتی ہے اور شاید انسانی جسم کا واحد پرزہ ہوں جو بیک وقت ہوا کو ”اندر باہر“ کرنے کی نازک ترین ڈیوٹی نبھا رہی ہوں۔ عینک کا بوجھ بھی بمع کانوں کے مجھے ہی سہارنا پڑتا ہے۔ انسان بھلے ہی منہ سے بولتا ہو، لیکن اس کا تمام تر صوتی آہنگ میرا مرہون منت ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو کبھی ناک بند کر کے بول لینا۔