وزیر ِ مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا ہے کہ ”ہم قرض کے لیے دوست ملکوں پر کوئی غیر ضرور ی دباؤ ڈالنے نہیں جا رہے جبکہ سچی بات تو یہ کہ ہم اُن پر کوئی ضروری بلکہ کسی قسم کا بھی دباؤ ڈالنے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ بھیک مانگنے کے لیے صرف درخواست کرنا ہو تی ہے جس میں لجلجانے کا عُنصر لازمی طور پر موجود ہوتا ہے اِس لیے کسی قسم کے دباؤ ڈالنے کا سوال تو پیدا ہی نہیں ہوتا جبکہ ہمارے وزیرِ اعظم نے صاف کہہ رکھا ہے کہ بیگرز آر ناٹ چُوزرز۔چنانچہ ہم عالمی معیشت پر ایک مثبت کردار کے مالک ہیں کیونکہ اگر بھیک مانگنے والا نہ ہو تو بھیک دینے والا بھیک کسے دے گا چنانچہ ہم بھیک دینے والے ممالک کو بھیک دینے کا موقع فراہم کرتے ہیں تا کہ وہ بھیک دے کر ثوا ب حاصل کر سکیں۔ گویا اُن کے ثواب حاصل کرنے میں ہمارا باقاعدہ ایک کردار ہوتا ہے جس کے لیے اُنہیں ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہم اُنہیں ثواب حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور اِس طرح خود بھی ثوابِ دارین حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارا یہ کردارماشاء اللہ مستقل ہے جس میں کوئی رُکاوٹ ڈالنے کا مرتکب نہیں ہو سکتا اور ہماری ساری معیشت ماشاء اللہ اسی پر قائم ہے۔“آپ اگلے روزایک ٹی وی پروگرام میں اپنے خیالا ت کا اظہار کر رہے تھے۔
اشتہار
ہر گاہ کرکٹ کی ترقی کے لیے ایک عدد جادو کی چھڑی درکار ہے اِس لیے ملک ِ عظیم کے جملہ جادو گر اور عامل حضرات سے درخواست ہے کہ مناسب قیمت پر کوئی جادو کی چھڑی مہیا کی جائے۔اگرچہ کھیلنا خود کھلاڑیوں نے ہی ہوتا ہے اور اگر انہیں معلوم ہو کہ کوئی جادو کی چھڑی بھی برسرِ کار ہے تو وہ زیادہ حوصلہ مندی سے کھیل کا مظاہرہ کریں گے جبکہ سفارشی کھلاڑیوں کو حوصلہ افزائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جبکہ بعض کھلاڑی جو فارم میں نہیں ہوتے انہیں بھی سفارش کی بنیاد پر ٹیم میں شامل کرنا پڑ تا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مشتہر کو خود بھی ماشاء اللہ ایک تگڑی سفارش کے تحت ہی چیئر مین مقرر کیا گیا ہے ورنہ کرکٹ کھیلنا تو درکنار مشتہر تو کبھی کرکٹ میچ دیکھنے کا بھی گنہگار نہیں ہُوا،بلکہ بہتر تو یہ تھا کہ میری تقرری کے ساتھ ہی مجھے ایک جادہ کی چھڑی بھی مہیا کر دی جاتی تاکہ مجھے اِس اشتہار بازی کی ضرورت ہی نہ پڑتی
المشتہر
محسن نقوی چیئر مین پاکستان کرکٹ بورڈ
ڈِگی میں لاش
ایک صاحب اوور سپیڈنگ کرتے ہوئے کہیں جا رہے تھے کہ ایک ٹریفک سارجنٹ نے اُنہیں روک لیا اور گاڑی کے کاغذمانگے جس پر وہ صاحب بولے،
”مجھے نہ روکو،میری ڈِگی میں ایک لاش ہے!“
”لاش ہے؟“سارجنٹ چیخ کر بولا اور اُس نے اپنے افسر کو فون پر سارے احوال سے مطلع کیا اور کہا کہ وہ اِس وقت فُلاں جگہ پر موجود ہے جس پر افسر نے کہا میں پانچ منٹ میں پہنچتاہوں اور وہ پہنچ بھی گیا اور اُن صاحب سے ڈِگی کھولنے کو کہا۔اُنہیں نے ڈِگی کھولی تو اُس میں کچھ بھی نہیں تھا
”وہ لاش کدھر ہے؟“افسر بولا،
”کونسی لاش؟“وہ بولے
”جو میرے سارجنٹ نے بتائی تھی“افسر نے کہا۔ جس پر وہ صاحب بولے،
”اِ س احمق نے آپ کو یہ بھی بتایا ہو گا کہ میں اوور سپیڈنگ کر رہا تھا!“
اور اب آخر میں کراچی سے سلیم کوثر کی تازہ غزل
ریاضتوں کی کوئی انتہا نہ رکھی جائے
ہنر میں سہل پسندی روا نہ رکھی جائے
مریضِ عشق کی حالت سنبھل تو سکتی ہے
قریب اِس کے کوئی بھی دوا نہ رکھی جائے
نشیب گاہِ محبت کی راہ داریوں میں
فرازِ لب سے کبھی بد دعا نہ رکھی جائے
فضا پرندوں سے خالی ہو،پیڑ سایوں سے
خراب اب اتنی بھی آب و ہوا نہ رکھی جائے
محبتوں میں جنوں خیزیاں تو ہوں لیکن
وہ چاہتا ہے کہ رسمِ وفا نہ رکھی جائے
دلوں میں شکر گزاری کی نغمگی تو رہے
نمود و نام کی خواہش ذرا نہ رکھی جائے
حیا کا اپنا نظامِ سپردگی ہے سلیم
ہتھیلیوں پہ سجا کے حنا نہ رکھی جائے
آج کا مطلع
میں نے کب دعویٰ کیا تھا سر بسر باقی ہوں میں
پیشِ خدمت ہوں تمہارے جس قدر باقی ہوں میں