وزیرِ توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ ”ہم خطے میں سب سے مہنگی بجلی پیدا کر رہے ہیں اور یہ عوام کی سخت کوشی اور جاں بازی کا امتحاں تھا جس میں وہ پورے نمبروں سے پاس ہوئے ہیں اور اِ س کا سہر ا صرف اور صرف آئی پی پیز کے سر بندھتا ہے جس میں ہمارے اپنے ہی لوگ بیٹھے ہیں اورجو بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں جبکہ قوموں کو بہادر اور جفا کش بنانا بجائے خود ایک نا قابلِ فراموش فخریہ کارنامہ ہے کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ عوام بجلی بلوں کی وجہ سے خود کُشیاں بھی کر رہے ہیں اور ہنسی خوشی بل بھی ادا کر رہے ہیں اور حکومت کو دن رات دعائیں بھی دے رہے ہیں جبکہ بجلی بلوں میں کمی کے حوالے سے حکومتِ پنجاب کا فیصلہ کوئی خاص پسند نہیں کیا گیا اور اسے عوام کی قوتِ برداشت کی توہین قرار دیا جا رہا ہے جبکہ لوگ گھر کا سامان بیچ کر بھی بجلی بل ادا کر کے اپنی جواں مردی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں جبکہ حکومت کو چاہیے کہ ایسے خود کُشیاں کرنے والوں کے مجسمے بنا کر تشہیر اور حوصلہ افزائی کے لیے نمایاں جگہوں پر رکھے جائیں“ آپ اگلے روز اسلام آباد میں یوتھ کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
قوم اگر ساتھ دے تو ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔سراج الحق
سابق امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق نے کہا ہے کہ ”قوم اگر ساتھ دے تو ہم ملک کی تقدیر بدل دیں گے لیکن قوم اگر ساتھ نہیں دیتی جیسا کہ اُس نے آج تک کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیا تو اِس کا مطلب ہے کہ قوم خود ہی ملک کی تقدیر بدلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی اِس لیے ہم بھی اِس بات پر قوم کو مجبور کر کے اِس کے جذبات مجروح نہیں کرنا چاہتے کہ قوم اگر اپنی اسی تقدیر میں مست ہے تو ہم بھی قوم کے ساتھ ہیں جیسا کہ ہم نے ہمیشہ اس اُمید پر قوم کا ساتھ دیا ہے کہ کبھی تو قوم بھی ہمارا ساتھ دے گی او ر شُبھ گھڑی آج تک نہیں آئی چنانچہ ہم نے مایوس ہو کر اکیلے ہی اِس کی تقدیر بدلنے کا بیٹر ا اُٹھا لیا ہے کہ ہمتِ مرداں مددِ خداکہ آخر ہم نے بھی کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے ،ایک طرف بیٹھے مکھیاں بھی تو نہیں مار سکتے،حتیٰ کہ اب تو مکھیاں بھی ختم ہوتی جار ہی ہیں۔اِس پر کم از کم ہمیں صفائی ستھرائی کے نمبر تو ملنا چاہییں،پیشگی شکریہ۔“ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی کے یومِ تاسیس کے موقع پر ہونے والی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
گاڑی بند
ایک خاتون کسی تنگ سڑک پر اپنی گاڑی پر سوار جا رہی تھی کہ اچانک اُس کی گاڑی بند ہو گئی۔وہ نیچے اُتری،بوننٹ کھولا او ر انجن کی تاروں کو ہلانے جلانے لگی،اتنے میں ایک اور گاڑی عقب سے آ پہنچی جس کا ڈرائیور ہارن پہ ہارن بجائے جا رہاتھا،خاتون نے اندر جا کر گاڑی سٹار ٹ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی وہ دوبارہ آکر انجن پر جھک گئی جبکہ پچھلی گاڑی والا مسلسل ہارن بجا ئے جا رہا تھا وہ اُس کے پاس آکر بولی،”پلیز،آپ میری گاڑی سٹارٹ کر دیں آپ کا ہارن میں بجاتی ہوں!“اور ا ب آخر میں کلکتہ،بھار ت سے ندیم احمد کی یہ غزل
بظاہر کام تھا آسان سارا
اُٹھا جس کے لیے طُوفان سارا
کسی کی یاد میں میری طرح ہی
پڑ اہے دشت بھی ویران سار ا
کہاں رہتے ہیں اب وہ لوگ جن سے
بھلا رہتا تھا کل دالان سارا
جہالت کام آجاتی ہے اکثر
تو پھر کس کام کا عرفان سارا
ظفر اقبال کو پڑھتا ہوں میں،اور
مجھے پڑھتا ہے ہندو ستان سارا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا لیکن
سنا ہر شخص نے اعلان سارا
مزہ لینے میں وہ شامل تھا لیکن
مجھے بھرنا پڑا تاوان سارا
نظر میں آسماں رکھتاہوں لیکن
زمیں کی سمت ہے میلان سارا
تو کیا ہو گا ندیم احمد کے د ل سے
نکل جائے اگر ارمان سارا
آج کا مطلع
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اُس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایہ تھا