شجرکاری مہم اور صدر زرداری کا شکریہ آپ یقینا سوچیں گے کہ میرا یہ کہنے کا مقصد کیا ہے، کیونکہ شجرکاری مہم تو ہر سال ہوتی ہے،بلکہ اب تو سال میں بار بار بھی ہوتی ہے۔ موسم بہار اور مون سون کی دو بڑی شجر کاری مہمات تو معمول ہیں۔ درخت تو وزیراعظم بھی لگاتے ہیں۔ وزرائے اعلیٰ بھی لگاتے ہیں۔ وفاقی و صوبائی وزرا، چیف سیکرٹری سے لیکر چھوٹے موٹے، مگر ”فیتی والے“افسر یعنی محکموں کے سربراہوں سے یونیورسٹیوں، کالجوں، بڑے سکولوں کے سربراہ تک تمام ”سرکاری افسر“ لگاتے ہیں اس لئے نہیں کہ درخت لگانا سنت رسوؐل ہے۔ ہمارے ملک کو اس کی اشد ضرورت ہے بلکہ اس لئے کہ ان کی درخت لگانے کی تصاویر، بیلچے سے مٹی ڈالنے اور پھر پودے کو پانی لگانے کی تصاویر ٹیلیویژن میڈیا اور اخبارات کو جاری کی جا سکیں۔ ہمارے ملک کی کون سی ”اہم“ شخصیت ہے،جو اپنی اپنی ”عملداری، یعنی مملکت“میں درخت نہیں لگاتی اور تصویر نہیں کھنچواتی۔ پھر صدر زرداری کا شکریہ ادا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جی ضرورت ہے اور بالکل ضرورت ہے صدر آصف زرداری نے ”بلاول ہاؤس کراچی“میں گزشتہ ہفتے مون سون کی شجرکاری مہم کا آغاز جو پودا لگا کر کیا وہ کوئی اور نہیں نیم کا درخت تھا، جی نیم کا درخت۔ نیم کا درخت لگانے میں سندھ اور کراچی والوں کے لئے ایک پیغام ہے،ایک ایسا پیغام جو انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اگر آپ نے سندھ اور کراچی کو سرسبز کرنا ہے اگر سندھ میں موسم کی تبدیلی کی ضرورت ہے، اگر سندھ اور خصوصاً کراچی کی گرمی اس شدت سے جو ”جہنم کی آگ“ یاد دلاتی ہے بچنا ہے، کراچی کے لوگوں کی زندگیاں بچانی ہیں تو ہمیں کراچی میں نیم کے درخت لگانے ہیں۔ ہر سڑک کے کنارے، ہر گھر کے باہر، ہر خالی جگہ پر اب نیم کا ہی درخت لگائیں۔ وہ خالی جگہوں پر جہاں ”شہری جنگل“ کے نام پر ”ہر غیر ضروری“ درخت لگا دیا جاتا ہے وہاں بے شک آپ پھل دار درخت لگائیں،اپنی مرضی کے غیر ضروری درخت لگا لیں،بلکہ ڈھیروں ڈھیر لگائیں، لیکن نیم کے درخت ضرور لگائیں،کیونکہ نیم کا درخت صرف چار پانچ سال میں سات۔ آٹھ فٹ کی بلندی تک انتہائی تیزی سے بڑھتا ہے اور خوب پھیلتا ہے اس کا سایہ بھی ہے۔اس کے ماحولیاتی اثرات بھی ہیں۔یہ کئی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ یہ وہ درخت ہے، جو چونکہ زیادہ ہرا بھرا ہے لہٰذا زیادہ آکسیجن دیتا ہے۔ کراچی میں کونسا درخت لگنا چاہئے یہ فیصلہ زرداری صاحب نے تو کر دیا ہے کہ ہمیں نیم کا درخت لگانا ہے۔ صدر زرداری نے اگر بلاول ہاؤس کے لان میں ”ایرو کیریا“کا نمائشی درخت لگانے کی بجائے نیم کا درخت لگایا ہے تو اب وزیراعلیٰ سندھ جناب مراد علی شاہ اور وزراء عذرا فضل پیچوہو، شرجیل انعام میمن، ناصر حسین شاہ، سعید غنی، سید سردار علی، سردار محمد بخش،میئر کراچی مرتضیٰ وہاب اور باقی سب ”وی آئی پیز“ پر بھی یہ لازم ہے بلکہ اب تو انہیں یہ حکم سمجھنا چاہئے زرداری صاحب کا کہ نیم کا درخت جگہ جگہ لگا اور لگاتے چلے جا ناکہ کراچی کو ایک مہذب شہر، ایک سرسبز شہر، ایک ماحولیاتی آلودگی سے پاک شہر بنانے کی مہم کا آغاز ہو سکے۔ آج اگر یہ مہم شروع کریں گے تو یقین کریں صرف چار پانچ برسوں میں یہ ایک بدلا ہوا کراچی ہو گا۔یہ یقینا وہ کراچی نہیں ہو گا، جہاں 2015ء میں غیر سرکاری ذرائع کے مطابق دو ہزار سے پانچ ہزار افراد گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔ صدر زرداری نے ایک بہت ہی صائب فیصلہ کیا ہے انہوں نے یقینا اس فیصلے سے پہلے کسی سے مشورہ کیا ہو گا۔کسی نہ کسی ماحول دوست شخص نے کسی نہ کسی ماحولیات کے حوالے سے پڑھے لکھے عالم نے انہیں بتایا ہو گا کہ نیم کا درخت لگائیں اور لگوائیں تاکہ ”کراچی پھر پرانا کراچی“ بن سکے۔ وہی پرانا کراچی جہاں کبھی ہر سڑک پر درخت تھے۔ وہ درخت کٹ گئے کیوں کٹ گئے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ شاید آج کراچی کے مکینوں کو اپنے گھر کے باہر درخت نہیں،بلکہ خوبصورت پتھر لگا پکا فرش چاہئے جہاں پر ان کی گاڑی کھڑی ہو سکے۔
٭٭٭٭٭