ایک فرعون تو پہلے ہی پابند سلاسل تھا، دوسرا بھی دھر لیا گیا۔ گویا کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا!جوش ملیح آبادی یاد آتے ہیں کہ
آج سوچا ہے کہ احساس کو زائل کردوں
اپنے خوابیدہ ارادوں کو اپاہج کردوں
آج سوچا ہے کہ پتھر کے صنم پوجوں گا
تاکہ گھبراؤں تو ٹکرا بھی سکوں مر بھی سکوں
ان حسینوں سے تو پتھر کے صنم اچھے ہیں
جن کے قدموں پہ مچلنے کو ہے بے تاب سا خوں
اور جا کے خوابیدہ فراعین سے اتنا پوچھوں
کہ ہر زمانے میں کئی تھے کہ خدا ایک ہی تھا
اب تو اتنے ہیں کہ حیراں ہوں میں کس کو پوجوں
جنرل فیض حمید اور ان سے قبل کے تین چار جرنیلوں نے میڈیا کے سامنے ایک میڈیا لاکھڑا کیا تھا اور اپنی مرضی کا نیا پاکستان گھڑ کر اس کی تکرار شروع کردی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج میڈیا کے بڑے بڑے جغادری شاہزیب خانزادہ کے پروگراموں میں بیٹھے کل کے بچوں کے تبصرے سن کر انہی کی بات کو بڑھاوا دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ آج جنرل فیض سے فیض یاب ہونے والے دیئے ایک ایک کرکے ٹممٹاتے ہوئے دم توڑ رہے ہیں۔ آج کسی ہارون الرشید کی آواز سنائی دیتی ہے نہ کسی عارف حمید بھٹی کی، آج بیچارہ ارشد شریف رہا نہ ہی نعیم الحق رہا اور بات جو رہی سو بے خبری رہی تک پہنچ چکی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے بعد کی دہائی کو پاکستان کی تاریخ میں Naugty Nintiesکی دہائی کہا گیا تھا اور بعض ایک معاشی ماہرین کے مطابق 90کی دہائی پاکستانی معیشت کی تاریخ میں Lost Decadeتھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے بعد کی دہائی بھی کچھ کم ثابت نہ ہوئی جسے ہم فراعین کی دہائی کہہ سکتے ہیں جو سب کے سب جنرل مشرف کی باقیات کے طور پر 2008سے 2018 تک ملک کو موم کی ناک بنا کر اس سے کھیلتے رہے، اسے توڑتے مروڑتے رہے اورآج ہر پاکستانی پریشاں حال ہے کہ پاکستان کاکیا بنے گا؟
14اگست کے روز وزیر اعظم نے یوم آزادی کی مرکزی تقریب سے خطاب شروع کیا تو میرا ریڈیو جانے کا وقت ہوگیا۔ ٹی وی پر وزیر اعظم کی مسلسل جاگنے والی سوجی ہوئی آنکھوں کے سوا کچھ بھی قابل توجہ نہ لگا۔خیر جب وزیر اعظم نے کہا کہ آج ملک میں مہنگائی ہے تو میرا ہاتھ ٹیبل پر پڑے اپنے بٹوے پر تھا،اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ملک میں بے روزگاری ہے تو میرا ہاتھ میز پر پڑے اپنے موبائل پر تھا اور آخر میں جب کہا کہ بجلی کے مہنگے بل ہیں تو میرا ہاتھ اپنی عینک پر تھا، اس کے بعد مجھ میں اور کچھ سننے کا یارا نہ تھا اور میں جلدی سے گھر کے مرکزی دروازے سے باہر نکل کر گاڑی میں سوار ہو کر ریڈیا پاکستان کے لئے پاکستان کی عظمت کے گن گانے کے لئے نکل کھڑا ہوا!
جنرل ضیاء الحق کے دور میں میڈیا کو دبانے کی کوشش کی گئی تو میڈیا سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوااور قلم کی حرمت بچائی گئی مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کایا پلٹ گئی اور الیکٹرانک میڈیا کے نام پر وہ گھناؤنا کھیل کھیلا گیا میڈیا ان کے رنگ میں ہی رنگا گیا۔ بھانت بھانت کے نئے نئے دانشور پیدا ہو گئے جن کی زندگی کا مقصد سوائے تن آسانی اور آسودگی کے لئے اپنا آپ بیچنا پیشہ صحافت ٹھہرا۔ قلم تو کسی کے پاس تھا نہیں مگر وقت نے ثابت کیا کہ خیر سے دماغ بھی نہیں تھا اور یہ بھونپو ہر شام ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر اپنے اپنے فرعونوں کی عظمت کے گن گاتے نظرآتے اور سادہ لوح عوام ان کی باتوں کا یقین کرتے ہوئے ان فرعونوں کو مرشد و مربی مان کر اپنا اپنا رانجھا راضی کرنے میں لگے رہے۔
میڈیا کی تو چھوڑیئے ہماری عدلیہ نے اس فرعونی دہائی میں جو گل کھلائے اس کا خمیازہ ابھی تک پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اب بھی ہماری عدلیہ، بیوروکریسی اور میڈیا میں ایسے عناصر کی بھرمار ہے جو کسی نہ کسی طرح ان فراعین کا دور واپس لانا چاہتے ہیں جس میں انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
اوپر سے ہر ایک کو نومبر کا انتظار ہے کہ ایک دفعہ ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آجائے تو سب کچھ ان کے حق میں بدل جائے گا۔ بدنصیبی دیکھئے کہ آدھی قوم بھی اسی بیوقوفی پر اتر آئی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کی دعائیں کررہی ہے اور پھر پوچھتی ہے کہ بنگلہ دیش کیوں بنا تھا؟ بنگلہ دیش اس لئے بنا تھا کہ تب بھی قوم کو اسی طرح تقسیم کر دیا گیا تھا، ادھر تم ادھر ہم کی سرخیاں نکالنے والے اپنے فن کے مظاہروں کے شوق میں بھول گئے تھے کہ جو چنگاری وہ جلا رہے ہیں اس سے پورے کا پورا نشیمن جل کر خاکستر ہو جائے گا۔ آج بھی ایسے کئی جغادری اپنے فن کے مظاہرے کے دور کی کوڑیاں لاتے پائے جاتے ہیں۔ اللہ خیر کرے!