ہمارے یہاں آزادی کا جشن منانے کے لئے ہر سال اگست کی پہلی تاریخ سے ہی تیاریاں پورے زور و شور سے عروج پکڑ جاتی ہیں،ہر طرف سبز ہلالی پرچموں کی بہار امڈ آتی ہے اور ساتھ ساتھ گلی کوچوں اور بازاروں کو خوبصورت و دیدہ زیب ہرے رنگ کی جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے۔اب اس کام میں تمام عمر کے لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن عموما بچوں کا جذبہ دیدنی ہوتا ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن کے دنوں میں ہم سب محلے کے ہم عمر لڑکے 14 اگست کے دن کے لیئے جھنڈیوں کے پیکٹ خرید کر انہیں دھاگوں میں پرو کر گھروں اور گلیوں کو سجاتے اور بہت زیادہ خوش ہوتے تھے۔ آزادی کا جشن منانے کا سلسہ آج بھی اسی طرح جاری ہے اور انشاللہ تا قیامت جاری وساری رہے گا۔خیر ان سبز رنگ کی جھنڈیوں اور اگست کے مہینے کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔اگست کے مہینہ سے ہم سب کو اس لیئے بھی والہانہ عقیدت ہے کہ اسی مہینہ میں برصغیر کے مسلمانوں کی لا زوال قربانیاں رنگ لائیں اور اسلامیان ہند طویل اور دشوار گزار مراحل طے کرنے کے بعد بالآخر ایک آزاد ریاست کے حصول میں کامیاب و کامران ٹھہرے۔آج اس پیارے وطن کی حفاظت او رہر حوالے سے دیکھ بھال ہم سب کی بنیادی ذمہ داری ہے۔اس وقت در پیش مختلف مسائل پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو دنیا بھر کی طرح موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے لئے بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں۔یاد رہے کہ ان موسمیاتی تبدیلیاں پر قابو پانے کے لیئے ساری دنیا میں اقدامات ہو رہے ہیں لہذا ہمیں بھی اس مسئلے سے نمٹنے کے لیئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہو گا۔اس ضمن میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کا سب سے آسان ذریعہ درختوں کی زیادہ سے زیادہ افزائش ہے کیونکہ درخت قدرتی ائیر کلینر ہیں جو فضائی آلودگی کو ختم کرنے میں سب سے زیادہ معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری اگلی نسلیں صحت مند ماحول میں سانس لے سکیں تو اس کے لیئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے حصے کا درخت لگانا ہو گا۔بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ والدین اپنے بچوں کے نام کا پودا لگائیں او رپھر اس پودے کی پرورش بھی اسی طرح کریں جس طرح اپنے بچوں کی کرتے ہیں۔اگر ایسا ممکن ہو جائے تو مستقبل میں والدین کی طرف سے اپنے بچوں کے لیئے اس سے بڑھ کر اور کوئی تحفہ نہیں ہو سکتا۔اس کے علاوہ ہمارے گھروں میں یا گھروں کے سامنے جہاں کہیں بھی خالی جگہ ملے اور خاص طور پر راجباہوں،نہروں اور دریاؤں کے کناروں پر بسنے والے لوگ کم از کم اپنے حصے کا ایک درخت لگائیں اور اس وقت تک مکمل نگہداشت کریں جب تک وہ ننھا پودا تناور درخت نہیں بن جاتا، ان کا یہ عمل نہ صرف صدقہ جاریہ ہے بلکہ آئندہ کی نسلوں پربھی احسان ہو گا۔یہ ایک کائناتی اصول ہے کہ آج جن درختوں کے نیچے ہم بیٹھے ہیں اور ان سے استفادہ کر رہے ہیں یہ ان ہاتھوں کے لگائے ہوئے ہیں جو شائد آج دنیا میں موجود بھی نہ ہوں اور اگر آج ہم اس کار خیر میں حصہ لیں گے تو آنے والے لوگ انہی درختوں کے نیچے بیٹھ کر ہمیں بھی یقینا اچھے الفاظ میں یاد کریں گے۔برکیف اگر ہم ان درختوں کی اہمیت و افادیت پر لکھنا شروع کریں تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔ المختصر یہ درخت زمین پر زندگی کی علامت ہیں اور ہمیں جینے کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ ذرا ایک لمحہ کے لئے سوچیں اگر زمین سے آکسیجن ختم ہو جائے تو کیا ہو گا؟ صرف چند منٹوں میں زندہ اجسام میں سے کوئی بھی نہ بچ پائے گااور ہمارے زندہ رہنے کے لیئے سب سے زیادہ ضروری آکسیجن کی سب سے بڑی مقدار یہی درخت مہیا کرتے ہیں۔ اس وقت ہماری تیز رفتار ترقی کے نتیجہ میں ہم روزانہ کی بنیادوں پر جتنی کاربن ڈائی آکسائید فضا میں چھوڑ رہے ہیں شائد ہمارا سانس لینا بھی محال ہو جائے لیکن قدرت کی نعمت یہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدارکو جذب کر کے ہمیں تازہ آکسیجن فراہم کر رہے ہیں۔تو آئیے اس چودہ اگست او ر آزادی کے حسین لمحات پر عزم کریں کہ سبز ہلالی پر چموں کی بہار اور خوبصورت جھنڈیوں کے ساتھ ساتھ ہم اپنے حصے کے پودے ضرور لگائیں گے تا کہ آئندہ کے چند برسوں میں ہمارے گلی،محلوں،اور میدانوں میں سر سبز و شاداب درخت لہلا رہے ہوں جو ماحول میں خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ہماری فضا کو بھی صحت افزا بنا دیں گے۔یوم آزادی کے اس پر مسرت موقع پر تجدید عہد کریں کہ ہم سب نہ صرف بھر پور طریقے سے آزادی کا جشن منائیں گے بلکہ ساتھ ساتھ سر سبز و شاداب پودے بھی لگا کر پیارے وطن کے ماحول کو ساز گار اور صحت افضا بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے۔