fbpx
منتخب کالم

 عوام بلبلا اُٹھے/ کنور عبدالماجد خاں


  

گزشتہ دو ماہ سے ملک میں گرمی کی  شدید لہر آئی ہوئی ہے جس سے عوام کی زندگی مشکلات سے دو چار ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہو گیا ہے روزمرہ کام کرنے والا مزدور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ وہ کام کی تلاش میں سڑکوں کے کنارے بیٹھا رہتا ہے۔ کوئی آئے اسے لے جائے مگر گرمی کی شدت میں اضافہ کی وجہ سے کاروبار میں کمی  ہو گئی ہے۔ دوسری طرف موسمی ادارے بھی عوام کو احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔ بے مقصد باہر نہ نکلیں سر پر کپڑا رکھیں۔ خاص طور پر بچوں کا خیال رکھیں۔ مگر کہاں احتیاط ممکن ہے۔ ہیٹ سٹروک سے متاثر بچوں اور بڑوں سے ہسپتال بھر گئے۔ وقت پر ہسپتال نہ پہنچ کر کافی جان کی بازی بھی ہار گئے۔ باقی کسر بجلی کی لوڈشیڈنگ نے نکال دی۔ کئی علاقوں میں 8 گھنٹے سے 12 گھنٹے بجلی نہیں آئی۔ جس سے عوام بلبلا اٹھے۔ انہوں نے اپنا غصہ باہر نکل کر نکالا۔ سڑکیں بلاک کیں ٹائر بھی جلائے دل بھی جلایا مگر کسی کو رحم نہیں آیا۔آخر عوام کا سبق کام آیا۔

ایک صوبے کے وزیر نے حالات پر قابو پانے کے لئے واپڈا کا سوئچ  اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ تاکہ ضرورت کے مطابق بجلی عوام کو فراہم کی جائے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔ پھر خبریں آنے لگیں بجلی کے بلوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ساتھ اشرافیہ کی مراعات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس پر عوام کاردعمل فطری  تھا۔ ہر سطح پر شعور اجاگر کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر خاص طور پربات لکھ کر سمجھائی گئی  عوام کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اشرافیہ کو پانی، بجلی، گیس، پٹرول مفت۔ جبکہ عوام کو کئی گنا ٹیکس کے ساتھ بل آنے لگے۔ اب عوام پھر بلبلانے لگے۔ کسی رہنما کی طرف دیکھنے لگے جو اس نا انصافی کو دور کر سکے۔اتنا ضرور ہوا پارلیمینٹ میں اشرافیہ کی مراعات پر گفتگو کی گئی۔ اس سے پہلے دبی زبان میں صدا بلند ہوئی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انصاف کب ہوتا ہے اور خاص کو احساس کب ہوتا ہے۔

راقم آج سبزی منڈی میں چکر لگا رہا تھا۔ گھیا کا ریٹ معلوم کیا تو بلبلا اٹھا۔ سبزی والے سے دوسری مرتبہ پوچھا کہنے لگا 350 روپے کلو۔ مختلف جگہ پوچھا۔ ویسے گھیا کم نظر آیا۔ آخر بھنڈی 150 روپے کلو لے کر گھر آیا۔ ٹماٹر کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ سبزی فروشوں نے سڑک کے دونوں اطراف میں قبضہ کیا ہوا ہے اور سڑک پر کوڑا ڈال دیا ہے۔ اب ضرورت مند یہاں تک آ جائے تو اس کی کھال اتروانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ اب خریدار کہاں جائے۔ مہنگی ہے۔ پھر بھی خریدنی ہے گھر خالی تو نہیں جانا کیا کہے گا گئے۔ کچھ تو گھر لے کر جاؤ وہ زمانے گئے ہمسایئے کے گھر سے کچھ آ جاتا تھا۔ سالن زیادہ بناتے تھے۔ اب ہر گھر میں فریج ہیں، اگرچہ سائنسی طور پر زیادہ عرصہ اشیاء خراب ہو جاتی ہیں۔ پھر جب صحت خراب ہوتی ہے ڈاکٹر چیک کر کے خبر دیتا ہے کوئی خراب چیز کھائی تھی۔ تازہ اشیاء کھائی جائیں۔ فریج نہ بھرا جائے عوام نے مہنگائی کا حل ایک نکال لیا ہے صحراؤں گاؤں کو چھوڑ کر شہروں کی طرف رخ کر لیا ہے۔ اپنے ساتھ بے شمار مویشی، کتے، گدھے اور اونٹ لے آئے ہیں۔ شہری لوگ اونٹ سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ اونٹ بھی شہروں میں آکر طرح طرح کے درخت پودے پھل فروٹ کھانے لگا ہے۔ حکومت کی ملک کو سرسبز بنانے کی پالیسی کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ گرین بیلٹ میں سڑکوں پر یہ قافلہ دیکھا جا سکتا ہے۔راستے میں کھڑے کھڑے آپ کو خالص اونٹنی کا دودھ مل جائے گا۔ جس طرح ان کی آبادی شہروں میں بڑھ رہی ہے اور ان کے لئے آسانیاں میسر آ رہی ہیں۔ کچھ عرصہ میں پودے اور درخت ختم ہو جائیں گے۔ شہروں کا درجہ حرارت اور بڑھ جائے گا اور عام آدمی درجہ حررت سے بلبلا اٹھے گا اگرچہ یہ جملہ اونٹ کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ اب انسان کی حالت جانور جیسی ہو گئی ہے۔

گزشتہ دنوں پی ایچ اے کے ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی۔ انہیں پارکنگ میں سایہ دار درخت لگانے کے لئے درخواست جمع کرائی۔ مگر پہلے لوہے کے جنگلے لگانے کی گزارش کی۔ کیونکہ دیگر مویشی بھی تو آوارہ پھر رہے ہیں۔ اب پودے کو اونٹ سے بھی بچانا ہے کیونکہ مویشیوں پر تو پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ البتہ پودوں کی حفاظت کے لئے پنجروں میں بند کیا جا سکتا ہے۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے