آخری دہشت گرد کے خاتمے تک لڑیں گے۔علی امین گنڈا پور
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختوخواہ علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ”کہ ہم آخری دہشت گرد کے خاتمے تک لڑیں گے“اِس لیے اب ہمارا سب سے پہلا فرض یہ ہے
کہ آخری دہشت گرد کو تلاش کریں کیونکہ اِس کے قلعہ قماع کے بعد کسی دہشت گرد سے لڑنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی لہٰذا صوبے بھر میں ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جو اِس آخری دہشت گرد کو تلاش کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھیں اور اگر یہ آخری دہشت گرد شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی پیش
ہو جائے تو اُس کار کردگی پر اُسے مناسب ایوار ڈ بھی دیا جا سکتا ہے،بصورتِ دیگر اُسے تلاش کر کے پیش کرنے والے کو بھی ایوارڈ سے محرو م نہیں رکھا جائے گا جبکہ آخری دہشت گرد کی مخبری کرنے والے کو بھی مناسب انعام و اکرام سے نواز ا جائے گا کیونکہ یہ آخری دہشت گرد ہو گا اور باقی سارے دہشت گردوں کے ختم ہونے ہی سے وہ آخری قرار پا سکے گا۔ آپ اگلے روز پشاور میں پولیس کے شہداء کے بارے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
تحریکِ انصاف کا صوابی جلسہ تاریخی ہو گا۔حماد اظہر
پاکستان تحریک ِ انصاف کے رہنما حماد اظہر نے کہا ہے کہ ”تحریکِ انصاف کا صوابی جلسہ تاریخی ہو گا“کیونکہ یہ اُسی تاریخ کو منعقد ہوگا جس کا تحریک کی طرف سے اعلان کیا گیا ہو گا حتیٰ کہ یہ تاریخی ہونے علاوہ خاصی حد تک جغرافیائی بھی ہو گا کیونکہ یہ جس مقام پر منعقد ہو گا اُس کی جغرافیائی حیثیت ہمیشہ کے لیے طے ہو جائے گی البتہ اگر حکومت نے اِس کے اِ نعقا د کی تاریخ تبدیل کر دی تو جو نئی تاریخ مقرر کی جائے گی وہ اِس تاریخ کے لحاظ بھی تاریخی ہو گا اور اگر خدا ناخواستہ حکومت نے اِس تاریخ کو جلسہ کی منسوخی کا اعلان کر دیا تو اِس لحاظ سے یہ بھی منسوخ شدہ تاریخ کو ایک یاد گار حیثیت حاصل ہو جائے گی اور ہر لحاظ سے اِس جلسے کا تاریخی ہوناہمیشہ کے لے طے ہو جائے گا نیز جس جگہ سے یہ جلسہ منسوخ کیا جائے گا وہاں ایک قابلِ ذکر یادگار بھی تعمیر کی جائے گی تا کہ اِس کی تاریخی حیثیت برقرار رہ سکے جو کہ زندہ قوموں کا شیوہ ہے اور زندہ قومیں ایسی یادگار یں قائم کر کے ہی اپنی زندگی کا ثبوت دیا کرتی ہے آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عوام کے ٹیکس سے نہیں،ذاتی رقم سے مظاہرین کی خدمت کر رہا ہوں۔گورنر سندھ
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا ہے کہ ”میں عوام کے ٹیکس سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی پیسے سے جماعتِ اسلامی کے دھرنے میں شریک مظاہرین کی خدمت کر رہاہوں،اگرچہ اُنہوں نے میری پیش کردہ چائے کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے تاہم اِس میں جو پراٹھے اور دیگر مقوّیات شامل تھیں وہ میرے سٹا ف کے خوب کام آئیں
جبکہ اُن میں سے بھی کئی افراد اِن مظاہرین کے ساتھ دلی ہمدردی رکھتے تھے اِس لیے یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ یہ خاطر طواضع مظاہرین ہی کی ہوئی ہے اگرچہ میں نے تو پہلے انہیں گورنر ہاؤس کے اندر دھرنا دینے کی اجازت کی پیشکس کی تھی لیکن اُنہوں نے خود ہی اسے قبول کرنے سے معذرت کر دی تھی کیونکہ اُنہیں خطرہ تھا کہ اِس بہانے اُنہیں گرفتار کر لیا جائے گا حالانکہ کہ اگر اُنہیں گرفتار کرنا ہوتا تو یہ کام باہر سے بھی کیا جاسکتا تھا اوریہ محض اُن کی خام خیالی تھی جبکہ میرا نقطہ ئ نظر عوامی خدمت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا آپ اگلے روز گورنر ہاؤس سے ایک اعلان جاری کر رہے تھے۔
تین شرابے
پولیس نے تین نشے میں دُھت شراب خوروں کو پکڑ کر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا تو اُنہوں نے اُن میں سے ایک سے پوچھا،”تم کیا کر رہے تھے؟“تو اُس نے جواب دیا،”جناب میں جھیل میں تربوز پھینک رہا تھا“دوسرے سے پوچھا تو اُس نے بھی یہی جواب دیا۔”تم؟“مجسٹریٹ نے تیسرے سے پوچھا ”تم کیا کر رہے تھے؟“تو وہ بولا،جناب ”میں ہی تو وہ تربوز ہوں جسے یہ دونوں جھیل میں پھینک رہے تھے!“اور اب آخر میں اوکاڑ ہ سے مسعود احمد کی غزل
بے وقت مری جان اذانیں نہیں ہوتیں
بازارِ محبت میں دوکانیں نہیں ہوتیں
ممکن ہے کہ اِن میں ہو کوئی دور کا رشتہ
اِس بُھربھری مٹی میں چٹانیں نہیں ہوتیں
اوروں کی زباں بولنی پڑھ جاتی ہے ہم کو
ہم جیسوں کی اپنی تو زبانیں نہیں ہوتیں
کچھ لوگ یہاں قیمتی ہوتے ہیں اگرچہ
سب لوگوں کی تو قیمتی جانیں نہیں ہوتیں
منڈلاتے ہیں دن رات وہ خطرات سروں پر
ڈر ڈر کے پرندوں سے اُڑانیں نہیں ہوتیں
پہلے تو سمجھ رہے تھے بیچارے درندنے
مسعود درختوں میں مچانیں نہیں ہوتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کا مقطع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کے دل میں جگہ مل گئی ہے تھوڑی سی
سو کچھ دنوں سے ظفر گوشہ گیر ہو گئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔