جن حجاج کرام نے حکومت پاکستان کے زیر انتظام سرکاری حج گروپوں کے ذریعے حج کیا ہے۔ ان کی عمومی آراء کے مطابق مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام و طعام کے انتظامات بہت اچھے تھے۔ ٹرانسپورٹ شٹل سروس بھی ہمیشہ میسر رہی،کھانا بھی اچھا تھا۔لیکن مناسک حج کے پانچ دنوں کے بارے میں کوئی ایک فرد بھی مطمئن نہیں تھا۔سب کی مجموعی آراء کا خلاصہ یہ ہے کہ وزرات مذہبی امور بالخصوص ڈائریکٹر جنرل حج کی ان پانچ ایام کی سرے سے کوئی پلاننگ ہی نہیں تھی۔حالانکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بلڈنگز کا حصول،کھانے کے انتظامات، ٹرانسپورٹ وغیرہ کے کنٹریکٹ مختلف کمپنیوں کو دیئے جاتے ہیں۔جن کے اخراجات حجاج کرام برداشت کرتے ہیں۔یہ کوئی مشکل ٹاسک نہیں۔وزارت مذہبی امور کا اصل امتحان تو منیٰ، عرفات اور مزدلفہ کے انتظامات سے متعلق تھا۔جہاں حجاج کرام کو بے یار و مددگار یا سعودی حکومت کے انتظامات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ منیٰ میں پاکستانی حجاج عموما ً سی،ڈی کیٹگریز میں ٹھہرتے ہیں جو ویسے ہی حدود مزدلفہ میں نیو منیٰ کے نام سے موجود ہے۔یہاں سے جمرات کا فاصلہ 4سے 5کلومیٹر ہے۔گویا کہ ہر حاجی مرد و خواتین،چاہے و ہ عمر رسیدہ ہے،شوگر یا دل کا مریض ہے، اسے ہر حال میں دس کلومیٹر چلنا ہے۔ ڈی جی حج کا سعودی حکام سے یا تو کوئی رابطہ نہیں تھا،زبان کے مسائل بھی تھے۔یا رابطہ تھا بھی تو محض دفتری،سطحی اور مؤ دبانہ گزارش والا۔خط لکھ دیا۔کسی نے جواب دے دیا تو اس کا بھی بھلا، نہ دیا تو اس کا بھی بھلا۔چنانچہ منیٰ میں حجاج کرام کے لئے اصل ادائیگی سے کافی کم جگہ ملی۔اور گدے سے گدا جوڑ کر بھی حاجیوں کو ٹھونسا نہ جاسکا۔قریبا 40فیصد حاجی کیمپوں سے باہر گلیوں،راہداریوں اور سخت گرمی میں بغیر پنکھے یا کولر کے ٹھہرنے پر مجبور کر دیئے گئے۔ ماضی میں خدام الحجاج منیٰ عرفات میں کافی سرگرم ہوتے تھے۔میں خود قومی اسمبلی کی سپیشل حج کمیٹی کا ذمہ دار رہا ہوں۔میں نے یہ تجویز دی تھی کہ پاکستان کے سرکاری دفاتر سے خدام الحجاج لئے جانے کی بجائے سعودی عرب ہی میں مقیم یونیورسٹی طلبہ ودیگر کو خدام الحجاج کے طور پر لیا جائے جو عربی زبان بول سکتے ہیں۔راستوں اور سعودی مزاج سے واقف ہیں،خود حج کرچکے ہیں،ان پر خرچ بھی بہت کم ہوگا۔اس تجویز پر شاید ایک دوسال جزوی عمل درآمد ہوا۔ چنانچہ منیٰ عرفات میں خدام الحجاج کا کہیں وجود نہیں تھا۔ وہ اپنے حج کی تکمیل میں مصروف تھے۔وزارت مذہبی امور کا سعودی عرب کی وزارت حج کے ساتھ گہرا قریبی اور دوستانہ رابطہ ضروری ہے۔تاکہ ان سے ہر سال ایام حج کے پانچ دنوں میں حاجیوں کو درپیش مشکلات کے حل کی تجاویز پر پیش رفت ہوسکے۔مثلا 1)منیٰ میں 30/35فیصد جگہ کم ملنا 2) (جمرات) سے منیٰ واپسی کے راستوں کی بندش کی وجہ سے حاجی کا 7/8کلومیٹر مزید پیدل چلنا 3) (تیز رفتار ایمبولینس سروس کی مزید فراہمی4) (سایہ دار شیلٹرز کی تعمیر 5) (ٹرام شٹل سروس کا اجراء6) (مؤسسات یعنی کمپنیوں کی بجائے معلمین اور مکتبوں کے پرانے نظام کی بحالی 7) (منیٰ سے مکہ برائے طواف زیادہ آمدو رفت کے لئے منی بس کی شٹل سروس کا انتظام 8) (ٹیکسی ڈرائیوروں کے منہ مانگے کرائے طلب کرنے پر کنٹرول 9) (منیٰ،مزدلفہ کم ازکم 5گنا مزید طہارت گاہوں کا انتظام۔
اسی طرح ڈائریکٹر جنرل حج پر واضح کردیا جائے کہ سعودی عرب کے نئے قوانین کے مطابق پاکستان کے پرائیویٹ حج گروپوں کے لئے بھی وہ خود سہولت کار ہیں۔اس لئے پرائیویٹ حج گروپوں کو نظر انداز نہ کریں۔ان کے ذریعے جانے والے حاجی بھی پاکستانی حاجی ہیں۔اسی طرح پرائیویٹ حج گروپوں کی طرف سے ترسیل کردہ رقوم کو اسی بنک میں رکھیں جو خود سعودی وزارت حج کا ہے۔تاکہ آن لائن ٹرانزیکشن میں زیادہ وقت نہ لگے۔