fbpx
منتخب کالم

  ٹرانس جینڈر کے بعد مغرب کا  ماں کی ممتا پر حملہ؟ دودھ بنک/ میاں اشفاق انجم


 مغرب اور طاغوتی قوتوں کا کمال ہے اُمت مسلمہ کو مختلف مسائل میں اُلجھا رکھا ہے کسی جگہ فرقہ واریت، کسی جگہ معیشت تو کسی جگہ دہشت گردی، تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے دنیا میں مسلمان ہی ایسی قوم ہیں جن کو اللہ نے پیدا کرنے کے ساتھ مقصد ِ حیات بھی بتا دیا ہے، زندگی کے رموز کو سمجھنے اور آگے بڑھانے کے لئے قرآن عظیم الشان کی صورت میں دستورِ حیات بھی دے دیا ہے۔ ہم ِ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہو گئے اور پھر اللہ نے ہمیں 99 فیصد مسلمانوں کے ملک پاکستان کا تحفہ بھی دے دیا اس لئے ہمیں نہ مسلمان ہونے کے لئے دوڑ دھوپ کرنا پڑی اور نہ نان مسلم ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا رکھے جانے والے سلوک کا سامنا کرنا پڑا، آج کے کالم میں مسلمانوں کی بے حسی یا مسائل کی بات کرنا مقصود نہیں ہے، مگر مسلمانوں کو پٹڑی سے اتارنے کے لئے اور اُنہیں آدھا تتر آدھا بٹیر بنانے کے لئے مغرب کے ہتھکنڈوں اور مسلسل سازشوں کا ذکر کرنا ہے۔ چند سال پہلے کی بات ہے اہل ِ پاکستان انڈین فلموں سے بڑے خوفزدہ تھے، ہمارے بچے بچیوں کو ہندو کلچر کا دلدادہ بنانے کے لئے انڈین فلمیں اور ڈرامے زہر قاتل قرار دیئے جاتے تھے، اِس میں کوئی شک نہیں اُن کا لچھر پن بے حیائی، عریانی بے مقصد ایکسر سائز نہیں تھی اس کے پیچھے بھی ہماری نوجوان نسل کو پٹڑی سے اتارنا ہی مقصود تھا، پھر محدود ٹی وی سے الیکٹرونک میڈیا کی بھیڑ چال اور پھر اس کی تباہ کاریاں پاکستان کی نوجوان نسل انڈین فلموں کے رنگ میں کتنی رنگی گئیں، بے حیائی، عریانی کتنی ہماری نوجوان نسل نے حاصل کی۔ نئے دور میں انڈین کلچر اب زیادہ بُرا نہیں لگ رہا، کیونکہ اس کے مقابلے میں انٹرنیٹ کی جدید ایڈوائس اور سوشل واٹس اپ، فیس بُک، انسٹا گرام نے لے لی ہے۔بات دوسری طرف نکل گئی آج کا موضوع ہر گز یہ نہیں ہے مغرب کا ٹارگٹ کسی نہ کسی انداز میں ہماری نوجوان نسل ضرور رہی ہے اِس کے لئے ہمارے تعلیمی نصاب میں تبدیلی، جہادی مضامین کا اخراج، اندھیر نگری ”قرآن کریم“کی مرضی کی اشاعت جیسی اندوہناک کہانیاں سننے کو ملتی رہی ہیں۔اب بھی یہ سلسلہ رُکا نہیں ہے ہمارے تعلیمی نصاب کو آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور ایسے طاقتور ادارے بلیک میل کرتے ہوئے اپنی ڈگر پر ڈالنے کی کوشش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں ہے2022ء میں تحریک انصاف کی حکومت میں ہمارے خاندانی کلچر کو تہس نہس کرنے اور اخلاقی قدروں کا جنازہ نکالنے کے لئے اسمبلی سے ٹرانس جینڈر بل منظور کرایا گیا، پھر ہیجڑوں کو ان کے حقوق دلانے کو جواز بنا کر ٹرانس جینڈر بل متعارف کرایا گیا اس کے لئے  ہمارے خاندانی وقار کا جنازہ نکالنے کی ایسی سازش کا آغاز تھا جس کو پاکستان میں مذہبی جماعتوں اور گروہوں نے بظاہر ناکام بنایا عملاً ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔

سپریم کورٹ میں آج تک کیس التواء کا شکار ہے۔ واقفانِ حال کے لئے اتنا ہی کافی ہے سود جسے اللہ سے بغاوت قرار دیا گیا ہے سالہا سال سے اس کے خاتمے کے کیس کی سماعت جاری ہے۔یہی حال پاکستان کو جنسی اعتبار سے آزاد بنانے  کے کھیل کے لئے رچائے گئے ٹرانس جینڈر کا ہوا ہے،ہماری قوم کو روٹی کپڑا، گھر،یوٹیلٹی بلز اور مہنگائی کے چُنگل میں اتنا پھنسا دیا گیا ہے ایسے دین و دنیا کی پروا ہی نہیں رہی،اسے اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کی فکر لگی ہوئی ہے، زندہ رہنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

اب دودھ بنک کے نام پر نیا مکروہ دھندہ شروع کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اس کا آغاز کراچی سے کر دیا گیا ہے اس کو قانونی شکل اور آئینی تحفظ دینے کے لئے جال تیار ہے۔اب قارئین دودھ بنک میں دودھ جمع کریں گے اور خدمت گار بنک سے دودھ بلا تفریق فراہم کریں گے۔دودھ جمع کرانے والی ماں  کا ریکارڈ بھی نہیں ہو گا،حرام حلال کی تمیز ختم ہو جائے گی، حرام خوری میں پیدا ہونے والے بچے آسانی سے جہاں سے دودھ حاصل کر سکیں گے۔مفتی تقی عثمانی سے بڑے بڑے علماء اکرام نے اس عمل کو حرام اور گناہ قرار دیا ہے اور احتجاج کا بھی اعلان کیا،  اللہ کے نبیؐ نے بچے کو دو سال دودھ پلانے کا پابند کیا،یہودی اور طاغوتی لابی کا فرمان جاری ہوا ہے ماں ایک دن بھی اپنے بچے کو دودھ نہیں پلائے گی۔ بچوں کی رجسٹریشن دودھ بنک میں ہو گی، مائیں دودھ جمع کرانے کی پابند ہوں گی، نام نہاد این جی اوز جو اُمت مسلمہ اور فرمان رسولؐ  کا مذاق اڑانے اور سنت رسولؐ کے اسوہ کو پس ِ پشت ڈالنے کے لئے میدان میں آ گئے ہیں ان کے آگے کوئی سینہ سپر ہونے کے لئے تیار نہیں۔  بات اب ”ماں کی ممتا“ تک آن پہنچی ہے کیا اب بھی خاموش رہیں گے؟ ہم نے تو قلم اُٹھا کر جہاد کا آغاز کر دیا ہے اب آپ کی باری ہے!

٭٭٭٭٭




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے