ہمارے ہاں بہت کم بیوروکریٹ اپنی یادداشتیں لکھتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے کا چسکا سب کو نہیں ہوتا لیکن اصل بات یہ ہے کہ لوگ سچ بولنے اور لکھنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ سچ لکھنے کی قیمت دینا پڑتی ہے اور ہر آدمی وہ قیمت دینے کا اہل نہیں ہوتا۔ قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر اور مختار مسعود جیسی شخصیات اب بیوروکریسی میں کم بہت ہیں جن کی کتابیں ہر باشعور آدمی نے پڑھ رکھی ہیں۔آجکل سلمان فاروقی کی کتاب ڈیئر منسٹر جناح کی بڑی شہرت ہے اس پر کالم لکھے جا رہے ہیں اور بڑے شہروں میں تعارفی تقریبات ہو رہی ہیں، کتاب پڑھیں گے تو پتہ چلے گا کہ کتنا سچ بولا ہے، فاروقی صاحب سے ایک زمانے میں اچھی یاداللہ تھی لیکن اب بہت وقت گزر گیا ہے۔ سعید مہدی کی کتاب کا بھی بڑا انتظار ہے پتہ نہیں وہ کب منظر عام پر آئے گی۔ وزارت ِ خارجہ سے متعلق کافی لوگوں نے دلچسپ کتابیں لکھی ہیں شاید اس شعبے میں سچ لکھنے میں زیادہ خطرات نہیں ہوتے۔
حال ہی میں ہمارے ایک مہربان ایمبیسیڈر جاوید حفیظ نے ”احوال عالم“ کے عنوان سے اپنے کالموں پر مشتمل کتاب چھپوائی ہے۔ جاوید حفیظ صاحب چار ملکوں میں سفیر رہے ہیں انہیں اُردو اور انگریزی کے علاوہ عربی پر بھی عبور حاصل ہے اِس کا انہیں عرب ملکوں میں پوسٹنگ کا بڑا فائدہ ہوا ہے۔ وہ آجکل روزنامہ ”دنیا“ میں باقاعدہ کالم لکھ رہے ہیں اس کے علاوہ وہ کچھ عرب اخباروں میں کالم لکھ رہے ہیں عربی جاننے کی وجہ سے الجزیرہ اور کئی دوسرے چینل مختلف مسائل پر تبصرے کے لئے اُن سے رابطہ کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے قاہرہ میں عربی سیکھنے کے علاوہ قائداعظم یونیورسٹی سے 1993ء میں ڈیفنس اینڈ سٹرٹیجک سٹڈیز میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
ہمارا ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔ اب فارن سروس بھی آغا شاہی، ریاض کھوکھر اور شہریار جیسی شخصیات سے خالی ہے۔ زوال کی وجوہات کئی ہیں اور یہ بتدریج ہوا ہے شاید اس کی بڑی وجہ میرٹ کا فقدان ہے۔ کاروبار میں اب میرٹ کو ایک غیرضروری چیز سمجھا جاتا ہے اور عملی طور پر اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ہمارے مفادات اور تعصبات نے فیصلہ سازی کے عمل پر غلبہ حاصل کر لیا ہے لیکن غنیمت ہے کہ فوج اور بیوروکریسی میں اصول و ضوابط پر بڑی حد تک عمل ہو رہا ہے۔ سول سروس میں ہر آدمی کئی مرحلوں سے گزرتا ہے اور پھر سروس کے دوران تجربات کی کہانی بڑی دلچسپ ہوتی ہے پھر فارن سروس میں ایک اضافی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ملکوں ملکوں گھومنے سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں اور پھر اندرونی حالات سے موازنہ بھی ہوتا رہتا ہے۔
جاوید حفیظ صاحب بھی اِن سارے مرحلوں سے گزرے اور بہت کچھ ہضم کیا لہٰذا اُن کی تحریروں میں پاکستان کے اندرونی حالات کے تجربے کے ساتھ ساتھ بیرونی ملکوں کے تجربات کا تڑکہ لگا ہوتا ہے ویسے ایسی کتابیں پڑھ کر عموماً دل کڑھتا ہے کیونکہ کارسرکار کے تجزیئے کچھ خوشگوار نہیں ہوتے بلکہ اُن میں میرٹ کے قتل، مالی بدعنوانیوں اور قانون اور ضوابط کی خلاف ورزیوں کا احوال پڑھ کر انسان پریشان ہوتا ہے۔ عموماً ہمارے صاحبان اقتدار ملک سے باہر کچھ زیادہ ننگے ہو جاتے ہیں کیونکہ دوری کی وجہ سے ہم وطن ان کے کرتب نہیں دیکھ رہے ہوتے لیکن فارن سروس کے لوگ تو عینی شاہد ہوتے ہیں بلکہ بعض دفعہ شریک جرم بھی۔ مزید پریشانی یہ کہ وقت کے ساتھ کسی شعبے میں کوئی بہتری یا تبدیلی نظر نہیں آتی بلکہ ہر آنے والا ناقابل رشک روایات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہم کچھ نہیں سیکھ رہے اور اب تو لوگ کہتے ہیں کہ ہم کسی کھائی میں گِر سکتے ہیں۔……کتاب 268 صفحوں پر مشتمل ہے اور واقعی احوال عالم ہے کیونکہ یہ ملکوں ملکوں کی کہانی ہے جو دلچسپ بھی ہے اور معلوماتی بھی۔