یہاں سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے قانون ساز اداروں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری کا موجودہ طریقہ کار کس کس کی ملی بھگت سے طے کیا ہے؟ اس میں کس کس کے مفادات وابستہ ہیں؟کیا ججز کی تقرری کے حوالے سے ہمارے جیسے کم شرح خواندگی والے ملک کا امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں سے موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہم ان جتنے ایماندار، دیانت دار، ذمہ دار، محب وطن اور قانون کی حکمرانی پر یقین کرنے والے شہری بن گئے ہیں کہ ہم ججز تقرری کے حوالے سے ان کی نقل کریں؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر ہمیں اپنے معروضی حالات کے مطابق اس طریقہ کار کو تبدیل کرنا ہو گا۔اگر ہمارے ہی ملک میں سی ایس ایس اور پی ایم ایس کے مقابلہ جاتی امتحان پاس کر کے اسسٹنٹ کمشنر منتخب ہو کر آنے والے افسر ترقی پا کر، صوبائی سیکریٹریز اور فیڈرل سیکریٹریز بن کر پورے صوبے یا پورے ملک کے محکموں کو چلا سکتے ہیں۔ اور کچھ افسر صوبوں کے چیف سیکریٹری بن کر پورا پورا صوبہ بھی چلا سکتے ہیں۔ ایک اے ایس پی بھرتی ہو کر صوبے کا آئی جی بن کر پورا صوبہ چلا سکتا ہے، فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی ہو کر آنے والا اگر آرمی چیف بن کر پوری آرمی کو کمانڈ کر سکتا ہے تو سول ججز یہ کام کیوں نہیں کر سکتے؟اگر معزز جسٹسزکے ایم صمدانی، شفیع الر حمٰن، سعد سعودجان، ظفر اللہ، انوارالحق، ایم۔آر۔ کیانی، ایلون رابرٹ (اے –آر) کارنیلیس صاحبان، جو سول سروس سے عدلیہ میں آئے تھے، اچھے اور نامور ججز ثابت ہو سکتے ہیں تو پھر اس سلسلے کومنقطع کیوں کر دیا گیا؟ کیا ایک سخت مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد سول جج بننے والا جوڈیشل افسر ہائی کورٹ کا جج بن کر صحیح فیصلے نہیں کر سکتا؟ ایک تجربہ کار جج زیادہ صحیح اور بہتر فیصلے کرنے والا ہو گایا ساری زندگی اپنے گاہکوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والاایک وکیل؟کوئی ان سے پوچھے کہ ایک وسیع تجربہ رکھنے والا جج کسی صوبہ کی ہائی کورٹ کا یا سپریم کورٹ کا چیف جسٹس کیوں نہیں بن سکتا؟ اسے صرف اس غلطی کی سزا دی جارہی ہے کہ وہ مقابلہ کا امتحان پاس کر کے ملک عظیم میں میرٹ پرکیوں بھرتی ہو اتھا؟ کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ کس کس کا گٹھ جوڑ ہے؟ ہر آنے والی حکومت اسی طریقہ کار کو کیوں لے کر چلتی ہے؟کیا کبھی کسی بھی سیاستدان نے اس حوالے سے آئین میں ترمیم کرنے کے لئے کبھی کوئی آواز اٹھائی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمارے ملک کی تقریبا تمام سیاسی پارٹیاں ہماری اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پر جانبدار ہونے کا الزام کیوں لگاتی ہیں؟
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرائت نہ ہو، اس کے فیصلوں کو عوام بلا چون و چراں تسلیم کریں،ان کا احترام کیا جائے، ان کے فیصلوں میں میرٹ کی حکمرانی نظر آئے، تو ہمیں اعلیٰ عدلیہ میں بھی ماتحت عدلیہ کی طرز پر میرٹ کی بنیاد پر ججز بھرتی کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ اپنانا ہو گا۔ یا ڈائریکٹ جسٹسز بھرتی کرنا بند کرنے ہوں گے اور سنیارٹی کم فٹنس کی بنیاد پر ڈسٹرکٹ ججز کو ترقی دے کر انہیں اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعینات کرنا ہو گا۔ ورنہ عدلیہ پر الزامات لگتے رہیں گے۔ جسٹس منیر پیدا ہوتے رہیں گے۔جج بولتے رہیں گے۔ان کے فیصلے نہیں بولیں گے۔اور ہم دینا کی رینکنگ میں مزیدپستی کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔ اس کے لئے سیاستدانوں اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو مل کر اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر ملک و قوم کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔(ختم شد)