شبنم جب میرے گھر نئی نئی آئی تو مسیحی ہونے کی وجہ سے مجھے اس سے الجھن ہوتی، سوچتی اب یہ دن بھی دیکھنا تھے کہ گھر میں غیر مسلم کام کریں گے۔ ہمارے کپڑوں اور برتنوں کو ہاتھ لگائیں گے، یہی وجہ تھی وہ مجھے کبھی اچھی نہیں لگی۔ میں خوامخواہ اس سے الجھ پڑتی، میرے تلخ رویئے اور گھوریاں ڈالنے کے باوجود وہ ہنستی رہتی۔ بہت دل تھا اسے نکال دوں چاہے خود کام کرنا پڑے۔ لیکن مجبوری یہ تھی کہ اسے گھر کے بڑوں نے رکھا تھا، اس لیئے بے بس تھی۔ میرے گھر کام کرتے ہوئے اسے تین سال ہو چلے تھے، اسے کسی چیز کا لالچ تھا نہ چوری کی عادت۔ وہ کٹر مذہبی عورت تھی، ہر بات میں مذہب کا حوالہ دیتی، اکثر کہتی باجی اتوار کو چرچ جاؤں گی تو فادر سے آپ کے لیئے بھی دعا کرواؤں گی اور میں برتری کے احساس میں مبتلا سوچتی فادر کی دعا ہی تو لگنی ہے مجھے۔ اس کی جو عادت مجھے اچھی لگی وہ یہ تھی کہ مسیحی ہونے کے باوجود وہ ہمارے مذہب اور قرآن پاک کا بہت احترام کرتی۔ میں نماز یا قرآن پاک پڑھ رہی ہوتی تو ساتھ آئے ہوئے اپنے بچوں کوشور کرنے سے منع کرتی، اپنے چار سالہ بیٹے کو کہتی منا آنٹی خداوند کو یاد کررہی تم لوگ شور نہیں کرو ورنہ خداوند ناراض ہوگا۔ خود بھی اکثر تلاوت کو دھیان سے سنتی۔ اس کو ہماری اذان بھی آتی اور اس کا ترجمہ بھی، شائید یہ کبھی مسلمان ہوجائے، یہ سوچ کر اس کے ساتھ میں نے اپنا رویہ کچھ بہتر کر لیا۔ ایک دن صفائی کے دوران اس کو زمین پہ گرا ہوا ایک صفحہ ملا۔ جسے اٹھا کر اس نے چوما اور پھر مجھے کہا، باجی اس پہ لگتا قرآن کی آئیت لکھی ہے۔ جس ادب و احترام سے چوم کر اس نے مجھے کاغذ پکڑایا میں بہت متاثر ہوئی۔ دیکھا تو واقعی یہ سورہ قلم کی آخری آیات تھیں۔ پکڑ کر جلدی سے چوما اور اللہ سے معافی مانگی۔ پتہ نہیں کب اور کیسے گرا یہ صفحہ، اس سے پوچھا تمھیں کیسے پتہ چلا کہ یہ قرآنی آئیت ہے، تو کہنے لگی اس کے اوپر لکھا ہے نظر بد کی دعا، اور نیچے عربی زبان ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا یہ قرآن کی آئیت ہوگی۔ میں کہا ٹھیک ہے تمھیں اس کی تو سمجھ آگئی یہ قرآنی آئیت ہے۔ لیکن مسیحی ہونے کے باوجود تم نے اسے نہائیت احترام سے چوم کر مجھے دیا ہے، اس کی کیا وجہ ہے۔ تو کہنے لگی یہ ہماری مذہبی کتاب نہیں لیکن مسلمانوں کی تو ہے۔ جو اوپر آسمانوں سے آئی ہے۔ جسے خداوند نے بھیجا ہے۔ تو جو خداوند نے بھیجا ہے اس کا احترام تو کرنا ہی ہے۔ میں متاثر تو ہوئی لیکن ظاہر نہیں کیا۔ اس سے کہا اچھا ایسا کرو جاتے ہوئے اس کاغذ کو مسجد کے باہر لگے ہوئے ڈبے میں ڈال جانا۔ باجی یہ میں نہیں کروں گی۔ پوچھا کیوں، تو کہنے لگی میں اسے ڈبے میں ڈالنے کے لیئے لیکر جاؤں گی اور آپ مسلمان توہین کا الزام لگا کر مجھے مارنا شروع کر دو گے۔ میرے تو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور مجھے مرنے کا شوق بھی نہیں جبکہ آپ مسلمانوں کی تو عادت ہے غیر مسلموں پر توہین مذہب کے جھوٹے الزام لگا کر انھیں قتل کرنا، کسی غیر مسلم نے قرآن یا قرآن کی آئیت چاہے پڑھنے کے لیئے ہی پکڑی ہو لیکن آپ توہین کا الزام لگا کر ڈنڈے سوٹے پکڑ لیتے ہیں اور جان سے مار کر ہی دم لیتے ہیں، جبکہ مذہب کی اصل توہین تو مسلمان خود کرتے ہیں۔
روز قرآن اٹھا کر عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دیتے ہیں۔ بات بات میں اللہ، رسولؐ کی جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ بے ایمانی کرتے ہیں۔ مسجد کے منبر پر بیٹھ کر دین کا درس دیتے ہیں اور اسی مسجد میں بچوں کے ساتھ بد فعلی کرتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں پہلے قرآنی آیات والے دھڑا دھڑ اسلامی کیلنڈر چھپواتے ہیں اور رمضان کے بعد وہی کیلنڈر کچرے میں پھینک دیتے ہیں۔ میں نے خود مسلمان گھروں میں قرآنی آیات والے کیلنڈر مسلمان خواتین کو چولہے پہ جلاتے دیکھا ہے۔ لیکن تب کسی پر قرآن یا مذہب کی بے حرمتی کا الزام نہیں لگتا۔ بے حرمتی کا سبق غیر مسلموں کے لیئے پڑھا ہے مسلمانوں نے۔ آئے روز کسی نہ کسی غیر مسلم پر توہین مذہب کا الزام لگا کر چرچ جلادیتے ہیں، گھروں کو آگ لگاتے ہیں، زندہ انسان جلاتے ہیں، آپ کو پتہ ایسا کرکے کر آپ مسلمان اپنا مذہب نہیں، غیر مسلموں کو اپنے مذہب سے بچاتے ہیں۔
شبنم کی باتوں نے مجھے شرمسار کر دیا اور میں اس سے نظر ملانے کے قابل نہ رہی، وہ سچ کہہ رہی تھی ہم توہین مذہب کی آڑ میں جو ظلم و بربریت دکھاتے ہیں وہ واقعی لوگوں کو اسلام سے متنفر کرتی ہے۔ توہین مذہب کے نام پر انسانی جانوں کو مار دیتے ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کی عیادت کی جو روز آپ پر کچرا پھینکتی تھی اگر اہانت کی سزا دینی ہوتی تو رسولؐ پاک پہلے خود پر کچرا پھینکنے والی عورت کو دیتے یا ان کو جنھوں نے طائف کی گلیوں میں آپ کو پتھر مارکر لہو لہان کیا تھا۔