تہذیبوں کا تصادم اور امریکی بالادستی/

صدر ڈولڈ ٹرمپ کے موجودہ عہدِ صدارت کا جائزہ لینے کیلئے بیسویں صدی کے دو مشہور سیاسی مفکرین کے نظریات کو دیکھنا ہوگا۔ معروف امریکی مصنف فرانسس فوکویاما نے جب نوّے کی دہائی میں ’تاریخ کا اختتام‘ والا نظریہ پیش کیا تو اسے بہت پذیرائی ملی۔ 1992 ءمیں شائع ہونیوالی اسکی مشہور زمانہ کتاب’’ The End of History and the Last Man‘‘میں اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے اختتام اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد لبرل جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام ایک مضبوط اور پائیدار سیاسی اور معاشی نظام کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اسکے مطابق اب تمام سیاسی اور نظریاتی ماڈلز ختم ہوچکے ہیں اور لبرل جمہوریت تاریخ کے اختتام کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس نے لکھا کہ لبرل جمہوریت اور منڈی کی معیشت وہ واحد سیاسی اور معاشی نظام ہیں جنھیں کوئی دوسرا متبادل نظام چیلنج نہیں کرے گا۔اس کا کہنا تھا کہ اس نظام تک پہنچنے میں انسانی تاریخ نے طویل سفر طے کیا ہے اور یہی وہ نظام ہیں جو انسان کی آزادی، عزت نفس اور بنیادی حقوق کی ضمانت بن سکتے ہیں ابھی فوکویاما کے نظریات کا شور جاری تھا کہ اسکے استاد سیموئل ہنٹنگٹن کا ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ والا نظریہ سامنے آ گیا جو زیادہ مضبوط بنیادوں پر بنایا گیا تھا اور جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ 1993ء میں امریکی جریدےفارن افیئرز میں شائع ہونے والے اس کے آرٹیکل The Clash of Civilizations and the Remaking of World Orderجو آگے چلکر کتاب کی شکل میں سامنے آیا،نے ایک ایسی بحث چھیڑی کہ جس نے ایک طرف سیموئل ہنٹنگٹن کو مشہور کردیا اور دوسری طرف اسکے نظریے کی قبولیت اور اثر پذیری میں اضافہ ہوتا گیا۔ تہذیبوں کے تصادم کےنظریے سے پہلے ہنٹنگٹن کی علمی شہرت اسکا فوج اور سول تعلقات، سول حکومتوں میں فوجی مداخلتوں اور امریکہ میں تارکین وطن کے آنے سے امریکی معاشرت پر اثرات کے تجزئیے شامل ہیں۔اس کا کہنا تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تنازعات کی بنیاد نظریاتی نہیں بلکہ ثقافتی ہو گی۔ یعنی مابعد زمانۂ سرد جنگ، جنگیں نظریاتی بنیادوں کی بجائے ثقافتی بنیادوں پر لڑی جائیں گی۔اب دوست اور دشمن کی تمیز کا معیار کلچرل اور ثقافتی ہو گا۔ فوکویاما اور ہنٹنگٹن دونوں نے نائن الیون کے واقعے اور القاعدہ اور داعش کے خلاف امریکہ کی جنگ کو تہذیبوں کے تصادم کے تناظر میں دیکھا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ غیرمغربی تہذیبیں مغربی سیاسی نظام کو تو اپنا لیں گی لیکن وہ اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت اور اقدار کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتیں۔ یہیں سے تصادم کا آغاز ہوتا ہے۔ انہوں نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ دوسرے ملکوں میں اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے اپنی سیاسی اور ثقافتی اقدار ایکسپورٹ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ایسا کرنے سے ردعمل پیدا ہوگا اور شناخت کو برقرار رکھنے کی کشمکش شروع ہو جائیگی۔ تہذیبوں کا یہ تصادم ایک مسلسل عمل ہے جو آج بھی جاری ہے۔ امریکہ کے اندر ہمیں آج رنگ اور نسل کی بنیاد پر جو تقسیم نظر آ رہی ہے اسکی بڑی وجہ شناخت کا بحران ہے جس کا مظہر سفید فام بالادستی اور صدر ٹرمپ کی جیت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ ابھی تک انہوں نے جتنے بھی اقدامات اٹھائے ہیں ان سب کو امریکہ کے اندر سفید فام بالا دستی اور باہر American Hegemony کو یقینی بنانے کی ایک منظم مہم کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ یوکرین کی معدنیات حاصل کرنے کا سمجھوتہ، یمن کے حوثیوں کیخلاف کارروائی، چائنا پالیسی، کینیڈا اور یورپ کے حوالے سے سے نئی سوچ، امیگریشن پالیسی، اور مختلف ممالک کیلئے امریکہ میں داخلے کیلئے ممکنہ پابندیاں اور سخت پالیسی امریکہ کو دوبارہ ورلڈ لیڈر بنانے اور اندرونی طور پر اپنی قومی شناخت کے بحران اور معاشی عدم استحکام سے نکالنے کا ایجنڈا ہے۔ بہرحال اس وقت امریکی معاشی بالادستی کا گھوڑا سرپٹ بھاگ رہا ہے جسکو روکنے والا کوئی نہیں۔ دنیا اس گھوڑے کی رفتار اور گرد سے بچ کر چل رہی ہے۔ فوکویاما کی تاریخ کا اختتام بھی نہیں ہوا اور سیموئل پی ہنٹنگٹن کی ’تہذیبوں کا تصادم‘ بھی جاری ہے جسکے خدوخال ان چار سالوں میں صورت پذیر ہونے کو ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اس تصادم کی صورتحال میں اپنی قومی آزادی،خودمختاری، شناخت اور ملی وقار کی حفاظت کیلئے کہاں کھڑا ہوگا۔