fbpx
منتخب کالم

کرہ ارض کی بڑھتی آبادی؟؟؟/

اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق 2050ء تک بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور یہ کہ چین کو آبادی میں پیچھے چھوڑ جائے گا۔بھارت ان آ ٹھ ممالک میں شامل ہے جن کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت چین، بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا کی مجموعی آبادی باقی دنیا کی مجموعی آبادی کے لگ بھگ ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین میں زیادہ بچے پیدا کرنے کے رجحان میں تبدیلی کے باعث بھارت آبادی کے حوالے سے چین پر سبقت لے جائیگا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کی موجودہ آبادی لگ بھگ ایک ارب 20 کروڑ ہےجو 2050ءتک بڑھ کر ایک ارب50کروڑ 32لاکھ ہو جائیگی جبکہ چین کی موجودہ آبادی ایک ارب 30 کروڑ 10 لاکھ سے بڑھ کر ایک ارب 30کروڑ نو لاکھ ہو جائے گی۔ماہرین ارضیات کے مطابق کرہ ارض وجود میں آیا تو سطح زمین کا تقریباً دو کروڑ مربع میل علاقہ زیر استعمال تھا۔ ایک فرد کو اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کیلئے دو مربع میل علاقہ میسر تھا۔ اب دنیا کی آبادی تقریباً دوگنا ہوتی جا رہی ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ (3000) تین ہزار تک سطح زمین پر قدم رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچے گی۔ یوں تو آبادی میں تیز رفتاری سے اضافے کی کئی وجوہات ہیں لیکن بڑی وجہ شرح اموات اور شرح پیدائش کا فرق ہے دنیا کے بیشتر ممالک میں بہتر طبی سہولیات میسر ہونے کی بنا پر شرح اموات میں قابل قدر حد تک کمی واقع ہوئی ہے مگر دوسری طرف شرحِ پیدائش میں اضافہ ہوا ہے۔ برطانوی ماہر آبادی تھامس رابرٹ کے مطابق جس کا ذکر اس نے اپنی کتاب ’’آبادی کے اصول‘‘ میں کیا ہے ’’اگر کسی ملک کی آبادی ایک فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھے گی تو اسے دوگنا ہونے کیلئے 69سال کا عرصہ درکار ہوگا دو فیصد اضافے کی شرح سے 35سال لگیں گے تین فیصد سالانہ کی شرح سے 23 سال اور اگر آبادی چار فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھے گی تو 17سال بعد دوگنا ہو جائیگی اس فارمولے کی رو سے برطانیہ کی آبادی 460سال کے بعد چین کے 57سال کے بعد پاکستان کی 22سال اور کینیا کی آبادی 17سال کے بعد دوگنا ہوتی جا رہی ہے۔ اگر کسی طرح ٹیکنالوجی میں ترقی اور سرمائے میں اضافے کی وجہ سے پیداواری صلاحیتوں میں کچھ بہتری ہو بھی جائے تو بہت کم وقت میں آبادی کا بڑھتا ہوا طوفان اس پر غالب آجاتا ہے جس سے طلب اور رسد میں توازن قائم رکھنا محال ہو جاتا ہے۔ دنیا کی تقریباً 77فیصد آبادی ترقی پذیر ممالک میں رہائش پذیر ہے اور ان کے باشندوں کی متوقع عمر اوسطاً 52سال تک ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے باشندوں کی اوسطاً عمر 75سال سے زائد تک جا پہنچی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی زیادہ تعداد اور کم عمری کی اموات سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کمانے والوں اور ان پر انحصار کرنے والوں کی تعداد میں توازن نہیں ہے علاوہ ازیں طبی سہولتوں کا فقدان ناخواندگی اور دوسری کئی وجوہات ایسی ہیں جن کی وجہ سے شرح اموات بلند ہے۔ دنیا کی آبادی میں اضافہ 97فیصد ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں ہو رہا ہے۔ افریقی ممالک میں سالانہ اضافہ کی شرح تین فیصد ہے جبکہ ایشیائی ممالک میں 2.8 فیصد ہے پاکستان میں اضافہ 3.2تک جا پہنچا ہے جبکہ برصغیر میں یہ اضافہ مجموعی طور پر 2.3فیصد ہے۔ مجموعی طور پر ایشیا میں اضافہ آبادی 1.9فیصد سالانہ ہے جبکہ یورپ میں یہی اضافہ اوسطاً اعشاریہ پچیس فیصد ہے۔ یورپ میں 1965کے بعد سے خواتین میں کم بچوں کو جنم دینے کے رواج کے باعث شرحِ آبادی اعشاریہ پچیس سے کم ہو کر اعشاریہ چوبیس تک آگیا ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 6.62فیصد فی عورت ہے اس طرح جاپان کی شرح آبادی اعشاریہ تینتالیس فیصد ہے میرے حساب سے خاندانی منصوبہ بندی کا مطلب محض مانع حمل ادویات یا دوسرے طریقوں کا عام کرنا نہیں بلکہ یہ ایک طرز زندگی اور طرز معاشرت ہے۔ ایک ایسا ماحول مہیا کرنا ہے جہاں سب اس کی افادیت کے قائل ہو سکیں۔ ورنہ آبادی میں اضافہ جہاں قدرتی وسائل کو تیزی سے کھا رہا ہے وہاں انسانی زندگی کے معیار کو بھی گھٹا رہا ہے۔ ضروری ہے کہ حکومتیں سیاسی نمائندے ماہرین معیشت سوشل ورکرز ماہرین آبادی اور عام شہری بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول پانےکیلئے اپنے اپنے محاذ پر’’جہاد‘‘کریں۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے