بیرون ملک بہت سے محبت کرنیوالے ملتے ہیں۔ مجھے گھومنے پھرنے کیلئے امریکا سب سے اچھا لگتا ہے اور پھر امریکا میں نیویارک بہت پیارا ہے۔ یہ شہر رونقوں کا مالک ہے، اسکی فلک بوس عمارتیں، قدموں سے لپٹا ہوا سمندر، پھیلی ہوئی آبادیاں، بکھرا ہوا سبزہ، سب کچھ تو یادگار ہے، اسی شہر میں دو ٹاور تباہ ہوئے تھے، دنیا کا بڑا معاشی مرکز مین ہٹن، نیویارک ہی میں ہے، ٹائمز اسکوائر بھی یہیں ہے۔ ہم نیویارک کو تین چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، ایک حصہ مین ہٹن تو دوسرا بروکلین کی طرف ہے، اس میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے، ایک حصہ برانکس اور پھر لانگ آئی لینڈ کی جانب ہے جبکہ ایک شاندار رہائشی حصہ کوئینز ہے، کوئینز نیویارک کا وہ علاقہ ہے جہاں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیدا ہوئے تھے، نیویارک ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے، سو اس شہر کی اپنی نوعیت اور اہمیت ہے۔اکثرامریکی شہروںمیںدوست ہیں مگر نیویارک دوستوں سے بھرا ہوا ہے، میں جب بھی نیویارک گیا، دوستوں سے بے شمار محبتیں ملیں، پاکستان میں مصروف تو باہر آ کے حد سے زیادہ مصروف رہتا ہوں کیونکہ دوستوں کا ہجوم گھیرے رکھتا ہے، امریکا جیسے ملک اور پھر امریکا میں نیویارک جیسے شہر کی مصروف ترین زندگی میں سے وقت نکالنا بڑا مشکل کام ہے مگر میرے دوست بڑے مہربان ہیں، وہ مصروفیات ترک کرکے میرے ساتھ گپ شپ کرتےہیں۔ میں واشنگٹن سے نیویارک یا پھر نیویارک سے واشنگٹن ہمیشہ بائی روڈ جاتا ہوں کیونکہ دونوں شہروں کا فاصلہ ایسے ہی ہے جیسے لاہور اور اسلام آباد کا ہو۔ اس مرتبہ ورجینیا، واشنگٹن اور میری لینڈ کے دوستوں سے آخری ملاقات دوپہر کے کھانے پر ہوئی پھر اسکے بعد میں اور ارشد بخاری نیویارک کو عازم سفر ہوئے، ارشد بخاری سے میری پرانی دوستی ہے، وہ پاکستان میں بھی کاروبار کرتے تھے، نیویارک میں بھی کاروبار کرتے ہیں۔ خیر! واشنگٹن سے دوپہر کے بعد نکلنے والے ہم دونوں دوست غروب آفتاب کے ساتھ نیویارک وارد ہوئے، نیویارک میں پہلی شام ہمارے دوست احمد وقاص ریاض نے مین ہٹن میں عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا، وہ ایک زمانے میں پنجاب کے وزیر اطلاعات رہے ہیں، عشائیے میں "مراد ٹرسٹ ہسپتال گوجرانوالہ” والے ساجد مراد، عطاء چوہدری اور طارق دین سمیت کئی دوست شریک ہوئے۔ دوسرے دن مجھے عرفان میر نے گھیر لیا، عرفان میر، ممتاز صحافی طاہر سرور میر کے سمدھی ہیں مگر میرا تعلق عرفان میر سے بہت پرانا ہے، کالرہ گجرات کے رہنے والے عرفان میر پرانے جیالے ہیں، پیپلز پارٹی کیلئے قربانیاں دیتےدیتے لیبیا سے ہوتے ہوئے امریکا پہنچے، عرفان میر کی شاہنواز بھٹو سے دوستی تھی، اتنی دوستی کہ دونوں ایک دوسرے کے نک نیم سے واقف تھے، ایک مرتبہ بینظیر بھٹو شہید نے نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کیا، جب وہ جانے لگیں تو اس دوران عرفان میر نے صرف اتنا کہا کہ "بی بی! میں گوگی کا دوست ہوں”۔ بس یہ کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو رک گئیں، انہوں نے کہا "تم گوگی کو کیسے جانتے ہو؟ "۔ واضح رہے کہ گوگی شاہنواز بھٹو کا نک نیم تھا۔ بینظیر بھٹو اسی روز عرفان میر کے ساتھ گوگی سے متعلق باتیں کرتی رہیں، اسکے بعد جب کبھی بھی بینظیر بھٹو نیویارک آئیں تو انہوں نے عرفان میر کو ضرور یاد رکھا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ اگلے دن عرفان میر کے ہتھے چڑھ گیا، بس پھر وہ تھے، انکے دوست اور ہم۔ نیویارک میں تیسرے دن مرزا سہیل بیگ ٹیپو نے عشائیہ دیا، اس میں باقی دوستوں کے علاوہ پی ٹی آئی کے مرزا خاور بیگ اور فاروق وڑائچ نے شرکت کی، دونوں کاروباری شخصیات ہیں، فاروق وڑائچ کے بھائی جاوید وڑائچ، رحیم یار خان سے پی ٹی آئی کے ایم این اے ہیں جبکہ مرزا خاور بیگ کے بھائی، مرزا دلاور بیگ سیالکوٹ سے پی ٹی آئی کے رہنما ہیں، خاور بیگ سے بہت پرانی دوستی ہے، وہ جب بھی ملتے ہیں، محبت کی انتہا کر دیتے ہیں۔ اگلے دن دوپہر کو پی ٹی آئی کے امجد نواز، شکیل بھٹہ اور نوید وڑائچ سے ملاقات ہوئی، سہ پہر میں بابائے نیویارک بشیر قمر سے ملاقات ہوئی، شام کو فورتھ پلر کے صدر فاروق مرزا اور ریاض بابر نے استقبالیہ دیا، اس تقریب میں مجیب لودھی، محسن ظہیر، ابراہیم راجہ، ظہیر احمد مہر، ارشد بخاری اور سید زاہد شہباز نے شرکت کی ۔ بس یہ میرا نیویارک میں چوتھا دن تھا، اگلے دن مجھے ہیوسٹن جانا تھا، جب جہاز اڑان بھر رہا تھا اور مجھے احمد مشتاق کے اشعار یاد آرہے تھے۔
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے