fbpx
منتخب کالم

کشمیر اور خالصتان/

آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم اور ممتاز کشمیری رہنما سردار تنویر الیاس خان نے 19جولائی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے مبصر مشن کو اسلام آباد میں دیگر کشمیری رہنماؤں کے ہمراہ ایک یادداشت پیش کی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کو باور کروایا ہے کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر پر توجہ دے کیونکہ بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے، عالمی برادری اور خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اس بات کا نوٹس لیں کہ بھارت یہ خلاف ورزی کیوں کر رہا ہے؟ ویسے بھی یہ مسئلہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان وجہ تنازع ہے۔

یادداشت پیش کرنے کے بعد سردار تنویر الیاس خان نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 19 جولائی کے حوالے سے پریس کانفرنس کی۔ کشمیریوں کی زندگی میں 19 جولائی کا دن بڑا اہم ہے کیونکہ 19جولائی 1947ء کو غازی ملت سردار ابراہیم خان کے گھر پر کشمیریوں نے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں الحاق پاکستان کا اعلان کیا گیا تھا اور اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ کشمیریوں کی منزل صرف اور صرف پاکستان ہے۔ کشمیری، پاکستان بننے سے قبل ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ پاکستان کے حق میں کر چکے ہیں کیونکہ یہ اعلان 19جولائی 1947ء کو ہوا تھا۔ بھارت پچھلے 77سالوں سے مسلسل ہٹ دھرمی کر رہا ہے حالانکہ یہ مقدمہ لیکر خود بھارت اقوام متحدہ گیا تھا، بھارت شیو سینا کے نظریے کو چھوڑ کر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے اور کشمیریوں کو رائے شماری کا موقع دیا جائے۔ کشمیری رہنماؤں نے اعلان کیا کہ وہ سردار تنویر الیاس کی قیادت میں 14اگست کو شہیدوں، مجاہدوں اور غازیوں کی سر زمین راولاکوٹ میں’’ہم ہیں پاکستان‘‘ کے زیر عنوان تاریخی جلسہ کرینگے۔ اس موقع پر اس گفتگو کے روح رواں سردار تنویر الیاس خان کا کہنا تھا کہ’’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جموں و کشمیر کا جو خطہ آزاد ہو چکا ہے، وہ پاکستان کا حصہ ہے، ہم اس کو پاکستان کی ریاست مانتے ہیں،البتہ ایل او سی کے اُس پار جو کشمیری قربانیاں دے رہے ہیں، ہماری مائیں، بہنیں، نوجوان اور بزرگ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان کا یہ عہد ہے اور ہمارا بھی یہ عزم ہے کہ جب تک ایک بھی کشمیری زندہ ہے، وہ کشمیر کی آزادی کیلئے بے چین رہیگا‘‘۔ ممتاز کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی بڑے بڑے جلسوں میں یہ نعرہ لگایا کرتے تھے کہ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ اس مرحلے پر آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سے خالصتان کے حوالے سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ’’ میں بحیثیت آزادی پسند کشمیری رہنما خالصتان کی آزادی کی حمایت کرتا ہوں، تمام کشمیری،خالصتان کی آزادی کے حامی ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ جلد خالصتان کا قیام عمل میں آئے‘‘۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم نے تو خالصتان کی حمایت کی ہے مگر بھارت کے مکار حکمران اتنے سادہ نہیں ہیں کہ وہ سکھوں کو پلیٹ میں رکھ کر آزادی دے دیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جس دن خالصتان بن گیا، کشمیر خود بخود آزاد ہو جائے گا، واضح رہے کہ بھارت کو کشمیر سے ملانے والا واحد زمینی راستہ مشرقی پنجاب سے ہو کر گزرتا ہے۔ دہلی اور امرتسر سے جانیوالے لوگ گورداسپور سے ہوتے ہوئے پٹھان کوٹ سے گزر کر مادھو پور کو کراس کر کے کشمیر میں داخل ہوتے ہیں۔ مادھو پور وہ مقام ہے جہاں دریائے راوی پر قائم ایک پل پنجاب کو جموں و کشمیر سے ملاتا ہے، ہندوستان نے مادھو پور کے مقام پر ایک ڈیم بھی بنا رکھا ہے، مادھو پور ایک طرح سے جنکشن ہے کیونکہ اس کے ایک طرف ہماچل پردیش ہے، اس کیساتھ مشرقی پنجاب جڑا ہوا ہے اور دریا پار کرتے ہی ایک طرف جموں و کشمیر کے اضلاع سامبا اور کٹھوعہ ہیں اور ان کے ساتھ پاکستانی پنجاب کا ضلع نارووال ہے۔ بھارتی شہری سامبا اور کٹھوعہ سے گزر کےجموں پہنچتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سیالکوٹ شہر جموں سے چند کلومیٹر دور ہے۔ جنگی حکمت عملی کے اعتبار سے دیکھیں تو نارووال ضلع بہت اہم ہے کیونکہ اس کے ایک طرف جموں و کشمیر ہے تو دوسری طرف بھارتی پنجاب کے اضلاع پٹھان کوٹ، گورداسپور اور امرتسر ہیں۔ جس دن راوی پر مادھو پور کا پل ٹوٹ گیا، کشمیر بھارت سے الگ ہو جائے گا۔ اس ساری صورتحال میں اقبال کا جذبہ حریت یاد آ جاتا ہے کہ

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے