سوال : شاعری سیکھی جا سکتی ہے یا یہ خداداد ہوتی ہے؟ (قرۃ العین شعیب)
جواب : میرے خیال میں خداداد ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیکھی نہیں جا سکتی۔ اس کا کوئی حتمی اصول مقرر نہیں۔ عربی کا مقولہ ہے شعرا تلامیذ الرحمان یعنی خدا کے شاگرد ہوتے ہیں۔ گویا تخلیقی عمل کو ایک قسم کی الہامی کیفیت تسلیم کیا گیا ہے۔ افلاطون کے نظریہ تخلیق کے مطابق شعر گوئی کا عمل ایک خاص قسم کی مقدس دیوانگی کا نتیجہ ہے اور یہ اکتسابی فن نہیں بلکہ دیویوں کا عطیہ ہے۔ فرانسیسی فلسفی ماری تاں کا کہنا ہے کہ معانی الہام میں موجود ہوتے ہیں لیکن ان کو الفاظ میں مجسم کرنے کے لیے الہام کو آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ گویا زبان و بیان میں مہارت اکتسابی ہو سکتی ہے مگر شعری حس مکمل وہبی ہوتی ہے۔ جسے علم اور مطالعے سے مزید صیقل کیا جا سکتا ہے۔ (نصیر احمد ناصر)
سوال : شاعری بیداریِ شعور میں کس طرح اہم کردار ادا کر سکتی ہے؟ (قرۃ العین شعیب)
جواب : شاعری صرف اس صورت میں بیداریِ شعور میں کوئی کردار ادا کر سکتی ہے جب یہ اپنے عہد سے ہم آہنگ ہو۔ اس میں روحِ عصر ہو۔ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں شاعر ہونا انٹلیکچوئل ہونے سے زیادہ افضل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی تک یہ ہی نہیں سمجھا گیا کہ شاعر کا معاشرے میں کیا کردار ہے۔ ہمارے ہاں جو شاعری مشاعروں میں، الیکٹرانک میڈیا پر اور دیگر ذرائع ابلاغ سے پیش کی جا رہی ہے وہ پیش پا افتادہ، ہیچ پوچ اور سطحی ہونے کے باعث عصری شعور بیدار کرنے کے بجائے الٹا خود شاعری پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ اس صورت حال کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایسی شاعری کو فروغ دیا جائے جو عصری آگہی اور شعور سے مملو ہو۔ تعلیمی اداروں میں شعری نصاب کو اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔ کالجوں اور جامعات میں شاعری کے موضوعات پر لیکچرز اور سیمینارز کے ذریعے حقیقی شعری روح کو اجاگر کیا جائے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ سائنس، طب، معاشیات وغیرہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کو بھی فلسفہ شعر اور شاعری ایک مختصر لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جائے اور فنی و سائنسی شعبوں سے وابستہ ماہرین اور اساتذہ کو شاعری کے موضوعات پر ریفریشر کورسز کروائے جائیں تا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں زندگی کے فکری، روحانی اور جمالیاتی پہلو گم نہ ہونے پائیں۔ انسان کی ارفع تخلیقی سوچ اور باطنی آسودگی ہی بیداری ء شعور کا باعث بنتی ہے۔ (نصیر احمد ناصر)