fbpx
خبریں

کافکا، جس کی تخلیقات عالمی ادب کا خزانہ ہیں! -/ اردو ورثہ

کافکا کی بیش تر تحریریں اُس کے ایک دوست کی وجہ سے آج عالمی ادب کا خزانہ ہیں۔ جرمنی کے معروف ادیب فرانز کافکا نے اپنی موت سے قبل اپنے دوست میکس بروڈ کو وصیت کی تھی کہ وہ اس کی غیر مطبوعہ تخلیقات کو نذرِ‌ آتش کر دے، لیکن میکس بروڈ نے اس پر عمل نہیں کیا تھا!

جرمنی کے اس معروف افسانہ نگار اور کہانی کار کے متعدد ادھورے ناول، افسانوں اور خطوط کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور عین جوانی میں دم توڑنے والے کافکا اور اس کی تخلیقات کو دنیا بھر میں‌ شہرت ملی۔ جرمنی میں کافکا کی تماثیل آج بھی بہت مقبول ہیں۔ بیسویں صدی کے اس بہترین افسانہ نگار کی وفات تین جون 1924ء کو ہوئی۔ اس کی عمر 40 سال تھی۔ وہ 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے تھا، ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے کافکا نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کے والدین اسے زیادہ نہیں‌ چاہتے اور اپنی کئی محرومیوں اور مسائل کی وجہ سے کافکا خود کو حرماں نصیب اور بدقسمت خیال کرتا تھا۔ وہ ذہین تھا، مگر خود اعتمادی سے محروم اور نفیساتی طور پر حساسیت کا شکار ہوچکا تھا۔ اس نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

زندگی کی فقط 40 بہاریں دیکھنے والے کافکا نے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک انشورنس کمپنی میں کام کیا اور قانون کی پریکٹس بھی کی۔ اس نے زندگی میں ایک مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کی تھی، مگر بچ گیا تھا اور بعد میں‌ اس کے دوست نے اسے سنبھالا۔ کافکا تپِ دق کی بیماری میں‌ مبتلا تھا اور اس دور میں‌ اس مرض کے ہاتھوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔

فرانز کافکا کے ناول ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو علمی و ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔

کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی تخلیقات پڑھی جائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور جب یہ تخلیقات دنیا کے سامنے آئیں تو انھیں بہت سراہا گیا اور کافکا کی تخلیقی اور ادبی صلاحیتوں کا سبھی نے اعتراف کیا۔

Comments




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے