دکن کی مرفہ الحال ریاست کے مسلمان حکمرانوں کے دور میں بعض غیر مسلم شخصیات بھی اہم عہدوں پر فائز رہی ہیں جن میں سے ایک راجا چندو لال بھی ہیں۔ وہ علم و ادب کے رسیا، اہلِ قلم اور قابل لوگوں کے بڑے قدر دان بھی تھے اور خود فارسی اور اردو کے شاعر تھے۔ انھوں نے اپنے عہد وزارت میں بیشتر اردو شعرا اور دیگر اہلِ قلم شخصیات کو حیدرآباد دکن بلوایا اور ان کی سکونت، خاطر اور معاش کا انتظام کروایا۔
راجا چندو لال 15 اپریل 1845ء کو چل بسے تھے۔ ان کے نام سے دکن میں ایک محلہ بھی آباد تھا۔
یہاں ہم ضیا الدّین احمد شکیب کے ایک تحقیقی مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں جو اس شخصیت کی زندگی، اہلِ علم و ادب اور دکن کے لیے خدمات کو بیان کرتے ہیں۔ شکیب لکھتے ہیں:
راجا چندو لال 1762ء میں پیدا ہوئے۔ راجا ٹوڈر مل ان کے مورثِ اعلیٰ تھے۔ یہ کہتری قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے جدِ امجد رائے مول چند آصف جاہ اوّل کی ہمرکابی میں دکن آئے تھے۔
راجا چندو لال کم سنی میں یتیم ہوگئے تھے۔ سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد شمشیر جنگ اور بدیع اللہ خاں کمشنر کروڈ گری کی ماتحتی میں کام کرتے رہے۔ پھر ترقی کرکے سبزی منڈی کی محرری پر مامور ہوئے اور صبح سے شام تک منڈی میں بیٹھے رہتے تھے۔ اس کے بعد بیلی کے عہدے پر ترقی کی۔
1797ء میں شمشیر جنگ نے انہیں اپنے تعلقہ موروثی کی کار پردازی پر مقرر کردیا اور اسی سال مشیر الملک بہادر کی تحریک پر دربارِ آصفیہ سے یہ قلعہ سدوٹ، موضع کریہ اور کانجی کوٹہ وغیرہ کے انتظام کے لیے چار ہزار سوار اور چار ہزار پیدل کے ساتھ مامور کیے گئے اور راجا بہادر کا خطاب پایا۔
اس مہم سے واپسی کے بعد شمس الامرا کی جمعیت پائیگاہ ان کو تفویض کی گئی۔ ان خدمات کو انہوں نے کمال حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا۔ جس کی وجہ سے میر عالم بہادر وزیر مملکت آصفیہ کی نگاہوں میں ان کا مقام بڑھ گیا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد سکندر جاہ بہادر نے ان کی قابلیت سے آگاہ ہوکر افواجِ آصفیہ کا پیش کار مقرر فرمایا۔
1235ھ (1820۔1819ء) میں نواب سکندر جاہ بہادر نے ان کو مہاراجا کا خطاب دے کر نوبت اور جھالر دار پالکی سے سرفراز فرمایا۔ اور اس کے علاوہ ایک کروڑ روپیہ نقد عطا فرمایا۔ 1822ء میں ہفت ہزاری منصب سے سرفراز کیا۔ نواب منیر الملک کے انتقال کے بعد مہاراجہ چندو لال وزارتِ عظمیٰ پر سرفراز کیے گئے۔ 1844ء میں ملازمت سے مستعفی ہوئے اور 86 برس کی عمر میں انتقال کیا۔
مہاراجا چندو لال کو انگریزوں کی تائید کی وجہ سے ایسا مقام حاصل ہوگیا تھا کہ وزیر اعظم امورِ نظم و نسق سے تقریباً بے دخل تھا اور سوائے دستخط کے عملاً اسے کوئی اختیار نہ تھا۔ نواب سکندر جاہ بھی بالکل بے اختیار ہوگئے تھے۔ اور انہوں نے ان حالات سے متاثر ہو کر محل سے نکلنا چھوڑ دیا تھا، بعض اوقات چار چار سال تک انہوں نے قدم باہر نہیں نکالا۔
1829ء میں نواب سکندر جاہ کا انتقال ہو گیا اور نواب میر فرخندہ علی خاں ناصرُ الدّولہ آصف جاہ رابع تخت نشین ہوئے۔ 1832ء میں نواب منیر الملک وزیرِ اعظم کا انتقال ہوگیا اور راجا چندو لال وزیرِ اعظم مقرر ہوگئے۔
راجا چندو لال کے اوصاف میں جس چیز نے نظم اور نسق اور تہذیب دونوں کو متاثر کیا وہ ان کا جود و سخا تھا۔ ان کی فراخ دستی اس حد کو پہنچی ہوئی تھی کہ نہ صرف مختلف تیوہاروں اور تقاریب پر وہ بے دریغ روپیہ صرف کردیتے بلکہ ہر روز ان کے داد و دہش کا یہ عالم رہتا کہ بقول نجم الغنی، مثنوی سحرُالبیان کے واقعات اس کے آگے پھیکے پڑ جاتے تھے۔
حکیموں، شاعروں، مرثیہ خوانوں، سوز خوانوں اور اربابِ نشاط و طرب کو ہزاروں روپے انعام میں دیتے اور ان کی تنخواہیں اس کے سوا ہوتی تھیں۔ راجا چندو لال نے حیدرآباد میں بہت سی خوب صورت و بیش قیمت عمارتیں بنوائیں۔ اس فیاضی کے اثر سے اہلِ ہنر تو مستفید ہوئے لیکن اس کا بار حکومت کے خزانہ پر پڑا۔ چندو لال خود بھی شاعر و ادیب تھے اور اہلِ ہنر کے قدر داں تھے۔
راجا چندو لال اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ ان کا یہ معمول تھا کہ ہر رات کئی گھنٹے اہلِ علم کی مجلس آراستہ کرتے جس میں شعر و سخن اور مسائلِ تصوف کا چرچا ہوتا۔ اس دور کے شعرا میں مولوی بو تراب، مولوی محمد حسین، مولوی غلام حسین، حفیظ دہلوی، فائز حاجی محمد علی ساغر، مرزا محمد طاہر تبریزی، حسین علی خاں ایما، تاج الدین مشتاق، ذوالفقار علی خاں صفا، میر عنایت علی ہمت، احمد علی شہید، ظہور اکرم، میر مفتون وغیرہ قابلِ ذکر شعرا گزرے ہیں۔