fbpx
خبریں

تاریخِ عالم: بوسنیا و ہرزیگوینا اور مسلمان -/ اردو ورثہ

بوسنیا و ہرزیگوینا (عرف عام میں بوسنیا) جنوب مشرقی یورپ میں کروشیا، سربیا، مونٹینیگرو اور Adriatic Sea کی حدود سے ملحقہ آزاد ریاست ہے جس کا دارالحکومت سرائیوو ہے۔ زمینی خد و خال پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کا زیادہ تر علاقہ پہاڑوں اور سر سبز و دل موہ لینے والی وادیوں پر مشتمل ہے۔

ابتدائی تاریخ: تاریخ بتاتی ہے کہ اِس خطۂ زمین کو الیرینز (Illyrians) قبائل کے لوگوں نے تقریباً سات سو صدی قبل مسیح میں آباد کیا۔ محققین لکھتے ہیں کہ الیرینز اور سلطنتِ روم کے درمیان اِس خطے کے حصول کے لیے پہلی لڑائی قبل مسیح میں ہوئی جس کے بعد یہ سلسلہ وقفہ وقفہ سے چلتا رہا اور دوسری صدی عیسوی میں دو بڑی لڑائیاں ہوئیں جس کے بعد سلطنتِ روم کی افواج نے بادشاہ آگستس کی قیادت میں خطہ کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔ سلطنت کا حصہ بننے کے بعد رومنوں نے اسے ترقی دی۔ رومی سلطنت کے باشندوں کی آباد کاری نے اس علاقے میں نئی جدید تہذیب کی بنیاد رکھی جو پہلے قبائل میں موجود نہ تھی۔ تین سو تیس عیسوی میں رومن سلطنت کے بادشاہ نے سلطنت کے امور کو بہتر طریقے سے سر انجام دینے کے لیے اسے دو حصوں میں تقسیم (بازنطینہ اور مغربی سلطنتِ روم) کیا تو یہ خطّہ (بوسنیا و ہرزیگوینا) مغربی سلطنتِ روم کا حصہ بن گیا۔ بعد میں‌ کئی ادوار گزرے اور تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک وہ وقت آیا جب سیاست کے نتیجے میں اقتدار، زمین اور وسائل کی جنگ زور پکڑ گئی اور مقامی لوگوں کے درمیان حکومت کے لیے کھینچا تانی کا اختتام خلافتِ عثمانیہ میں اس خطّے کی شمولیت پر ہوا-

اسلام کی آمد: بوسنیا میں اسلام کی آمد 15 ویں صدی عیسوی میں مسلمان فاتحین کے یہاں آنے سے ہوئی۔ سلطان محمد فاتح نے بوسنیا کو فتح کیا اور یہ علاقہ خلافتِ عثمانیہ کا حصہ بنا اور مسلمان تاجروں اور فوجی جو وہاں آ کر بسے ان کی بدولت اسلام کی تبلیغ اور قبولیت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ بعد ازاں 16 ویں صدی میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام نے نمایاں کردار ادا کیا جن میں مختلف سلاسل کے بزرگوں کے نام لیے جاتے ہیں۔

عہدِ اسلامی: خلافتِ عثمانیہ کی مثبت پالیسیوں نے بوسنیا کو معاشی، دفاعی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا۔ عہدِ خلافتِ عثمانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی زندگی پر بھی توجہ دی گئی۔ انتظامی، قانونی اور سیاسی نظام میں تبدیلیوں نے علاقہ کی ترقی میں خاص کردار ادا کیا۔ قرآنی احکامات اور دین کی امن و بھائی چارے کی تعلیمات کے ذریعے مختلف مکاتب کے مابین فاصلہ کو کم کرنے پر توجہ دی گئی اور اس میں مشائخ و صوفیا نے کلیدی کردار ادا کیا۔

اسلامی مقامات: آج بھی بوسنیا کے تاریخی مقامات میں اسلامی تہذیب و ثقافت چھلکتی ہے اور وہاں‌ کئی مساجد اور بزرگوں کے مزارات موجود ہیں۔ اس کی مثال غازی خسرو بیگ مسجد، مسجدِ سفید، بادشاہی مسجد اور محمد پاشا مسجد ہیں۔ غازی خسرو جنگِ ہسپانیہ کا ہیرو تھا جو بعد ازاں 1521 میں بوسنین صوبہ کا گورنر بنا، اسی کے نام پر غازی خسرو بیگ مسجد 1557 میں تعمیر کی گئی تھی۔

ریاست بوسنیا و ہرزیگوینا نے یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے پر 1992 میں آزادی حاصل کی۔

Comments




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے