fbpx
خبریں

مزار: علامہ اقبال حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر/ اردو ورثہ

1905ء میں یورپ روانگی کے ارادے سے علّامہ اقبال لاہور سے دلّی پہنچے تو وہاں خواجہ نظام الدّین اولیاء کی درگاہ پر حاضری دی۔ اس درگاہ پر اقبال نے اپنی نظم ’التجائے مسافر‘ پڑھی تھی۔

محبوب الٰہی نظام الدّین اولیاء سلسلۂ چشتیہ کے چوتھے صوفی بزرگ تھے جن کے ارادت مند برصغیر میں پھیلے ہوئے تھے اور آج بھی ان کے عرس پر کثیر تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ علّامہ اقبال کو اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام سے بڑی عقیدت تھی اور اس کا اندازہ ان کی نظم کے اشعار سے کیا جاسکتا ہے۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں؛ ’دو دفعہ حضرت خواجہ نظام الدّین کی درگاہ پر حاضر ہوا تھا۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے بہت اچھی قوالی سنوائی۔‘

علّامہ کبھی کبھار دلّی آتے تھے، جس کی ایک وجہ ان کا حکیم نابینا سے علاج معالجہ کا سلسلہ بھی تھا۔ ستمبر میں یورپ روانگی سے قبل دلّی آمد کے بعد وہاں مختصر قیام کے دوران علّامہ اقبال اردو کے مشہور شاعر مرزا غالب کے مدفن پر بھی گئے تھے۔

دلّی کی روداد علّامہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیے: ریلوے اسٹیشن پر خواجہ سید حسن نظامی اور شیخ نذر محمد صاحب اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس موجود تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے شیخ صاحب موصوف کے مکان پر قیام کیا۔ ازاں بعد حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر حاضر ہوا اور تمام دن بسر کیا۔ اللہ اللہ! حضرت محبوب الہیٰ کا مزار بھی عجیب جگہ ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ دہلی کی پرانی سوسائٹی حضرت کے قدموں میں مدفون ہے۔ خواجہ حسن نظامی کیسے خوش قسمت ہیں کہ ایسی خاموش اور عبرت انگیز جگہ میں قیام رکھتے ہیں۔ شام کے قریب ہم اس قبرستان سے رخصت ہونے کو تھے کہ میر نیرنگ نے خواجہ صاحب سے کہا کہ ذرا غالب مرحوم کے مزار کی زیارت بھی ہوجائے کہ شاعروں کا حج یہی ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب موصوف ہم کو قبرستان کے ایک ویران سے گوشے میں لے گئے جہاں وہ گنج معانی مدفون ہے، جس پر خاکِ دہلی ہمیشہ ناز کرے گی۔ حسنِ اتفاق سے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نہایت خوش آواز لڑکا ولایت نام تھا، اس ظالم نے مزار کے قریب بیٹھ کر”دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی…..” کچھ ایسی خوش الحانی سے گائی کہ سب کی طبیعتیں متاثر ہوگئیں، بالخصوص جب اس نے یہ شعر پڑھا:

وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذت خوابِ سحر گئی

تو مجھ سے ضبط نہ ہوسکا، آنکھیں پرنم ہوگئیں اور بے اختیار لوحِ مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدے سے رخصت ہوا۔ یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپاتا ہے۔

اگرچہ دہلی کے کھنڈر مسافر کے دامنِ دل کو کھینچتے ہیں، مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ہر مقام کی سیر سے عبرت اندوز ہوتا۔ شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے پر فاتحہ پڑھا، دارا شکوہ کے مزار کی خاموشی میں دل کے کانوں سے ھوالموجود کی آواز سنی اور دہلی کی عبرت ناک سرزمین سے ایک ایسا اخلاقی اثر لے کر رخصت ہوا، جو صفحۂ دل سے کبھی نہ مٹے گا۔ تین ستمبر کی صبح کو میر نیرنگ اور شیخ محمد اکرام اور باقی دوستوں سے دہلی میں رخصت ہو کر بمبئی کو روانہ ہوا اور 4 ستمبر کو خدا خدا کر کے اپنے سفر کی پہلی منزل پر پہنچا۔

Comments




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے