خبریں

ایم آر آئی ٹیسٹ سے پہلے دیا جانے والا کیمیاوی مادہ جان لیوا ہو سکتا ہے: تحقیق/ اردو ورثہ

ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ایم آر آئی سکین سے قبل مریض کو دیا جانے والا کیمیکل، جو تصاویر کو زیادہ واضح بنانے میں مدد دیتا ہے، بعض مریضوں میں  ممکنہ طور پر جان لیوا پیچیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔  تاہم ایسا بہت کم ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف نیومیکسیکو کے محققین نے دریافت کیا کہ گیڈولینیم، جو ایم آر آئی سکین میں استعمال ہونے والی ایک زہریلی اور کم یاب دھات ہے، جسم میں موجود آگزیلک ایسڈ جو بہت سی غذاؤں میں پایا جاتا ہے، کے ساتھ مل کر انسانی بافتوں میں انتہائی چھوٹے دھاتی ذرات بنا سکتا ہے۔

یہ تحقیق، جو جریدے میگنیٹک ریزوننس امیجنگ میں شائع ہوئی، میں ان انتہائی چھوٹے دھاتی ذرات کے پیدا ہونے کا جائزہ لیا گیا ہے، جو گردوں اور دیگر اعضا میں ممکنہ طور پر جان لیوا مسائل سے منسلک ہو سکتے ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گیڈولینیم پر مبنی کنٹراسٹ ایجنٹس ایک خاص بیماری نیفروجینک سسٹمک فائبروسس کا باعث بن سکتے ہیں، جس میں جلد، دل اور پھیپھڑے سخت اور موٹے ہو جاتے ہیں، اور جوڑوں میں تکلیف دہ کھچاؤ پیدا ہوتا ہے۔

تحقیق کے مصنفین میں شامل یونیورسٹی آف نیو میکسیکو کے برینٹ ویگنر نے کہا کہ ’لوگ صرف ایک خوراک کے بعد بھی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔‘

محققین کا کہنا ہے کہ جب گیڈولینیم جسم میں داخل کیا جاتا ہے، تو یہ دیگر مالیکیولز کے ساتھ مضبوطی سے جڑ جاتا ہے اور جسم سے خارج ہو جاتا ہے، اور زیادہ تر افراد میں کوئی منفی اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔

تاہم، سائنس دانوں کے مطابق، ایسے افراد میں بھی جنہیں کوئی علامات محسوس نہیں ہوتیں، گیڈولینیم کے ذرات گردوں اور دماغ کے ٹشوز میں پائے گئے اور انہیں خون اور پیشاب میں ’برسوں بعد‘ بھی دریافت کیا گیا۔

تازہ ترین تحقیق میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کچھ لوگ کیوں بیمار ہو جاتے ہیں جب کہ اکثریت متاثر نہیں ہوتی، اور یہ کہ کنٹراسٹ ایجنٹ میں موجود دیگر مالیکیولز سے گیڈولینم کے ذرات کس طرح الگ ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر ویگنر نے کہا کہ ’ان نینو ذرات کی تشکیل کچھ چیزوں کی وضاحت کر سکتی ہے۔ یہ اس بات کی وضاحت کر سکتی ہے کہ بیماری میں اس قدر شدت کیوں آتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’جب ایک خلیہ باہر کے دھاتی نینو ذرے سے نمٹنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ جسم کو ردعمل دینے کے لیے سگنلز بھیجتا ہے۔‘

سائنس دانوں نے خاص طور پر آکزیلک ایسڈ کے کردار کا جائزہ لیا  جو ٹماٹر، پالک، گری دار میوے اور بیریز جیسی کئی غذاؤں میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایسڈ دھاتی آئنز سے جڑ جاتا ہے اور گردے میں پتھری بننے کے عمل کا بھی سبب ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ جب لوگ ایسی غذائیں یا سپلیمنٹس استعمال کرتے ہیں جن میں وٹامن سی ہوتا ہے، تو آکزیلک ایسڈ جسم کے اندر بھی بنتا ہے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے دریافت کیا کہ آکزیلک ایسڈ گیڈولینیم کی تھوڑی مقدار کو کنٹراسٹ ایجنٹ سے الگ کر کے نینو ذرات کی شکل میں جمع کر دیتا ہے، جو مختلف اعضا کے خلیوں میں سرایت کر جاتے ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ کچھ مریضوں کا جسمانی نظام اس قسم کے نینو ذرّات کے بننے کے لیے زیادہ حساس ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر ویگنر نے کہا: ’ممکن ہے کہ اگر ان افراد کے جسم میں آکزیلک ایسڈ زیادہ مقدار میں موجود ہو یا ان کے جسم میں ایسے مالیکیولز ہوں جو گیڈولینیم سے آسانی سے جڑ جاتے ہوں، تو اس سے نینو ذرات کی تشکیل کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔‘

انہوں نے وضاحت کی کہ ’یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ کچھ افراد میں شدید علامات اور بیماری کی شکل میں شدید ردعمل دیکھنے میں آتا ہے، جب کہ دیگر لوگ بالکل ٹھیک رہتے ہیں۔‘

محققین نے ایم آر آئی سکین سے جڑے خطرات کو کم کرنے کے کچھ طریقے تجویز کیے ہیں۔

ڈاکٹر ویگنر کے بقول: ’اگر مجھے کنٹراسٹ کے ساتھ ایم آر آئی کروانی ہو، تو میں وٹامن سی نہیں لوں گا، کیوں کہ یہ دھات (گیڈولینیم) ردعمل ظاہر کرنے والی ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اُمید ہے کہ ہم ایسے افراد کی مدد کے لیے کچھ واضح سفارشات کے قریب پہنچ رہے ہیں۔‘




Source link

Related Articles

رائے دیں

Back to top button