تعلیم مکمل کرنے کے لیے 17 فلسطینی طلبہ کی پاکستان آمد/ اردو ورثہ

فلسطین پر اسرائیلی جارحیت سے غزہ کی پٹی میں تعلیمی ادارے منہدم ہو چکے ہیں اور یہاں کے طبلہ اپنا تعلیمی سفر جاری رکھنے کے لیے دیگر ممالک بشمول پاکستان کا سفر کر رہے ہیں۔
17 فلسطینی طلبہ گذشتہ اتوار کو کراچی پہنچے تھے اور بعد میں وہ اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ یہ فلسطینی طلبہ الخدمت فاؤنڈیشن کی مدد سے پاکستان آئے جو ان کو تعلیم جاری کرنے میں اعانت فراہم کر رہی ہے۔
پاکستان پہنچنے والے فلسطینی طلبہ میں سے بعض کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جارحیت سے انہیں اور ان کے خاندانوں کو ان گنت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم وہ اپنی تعلیم کو مکمل کر کے اپنے ہم وطنوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
غزہ پر گذشتہ ڈیڑھ سال سے جاری اسرائیلی حملوں سے جہاں ہر شعبہ ہی اس تباہی کی لپیٹ میں ہے وہیں تعلیم کا شعبہ بھی شدید متاثر ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق غزہ میں 85 فیصد سکولوں کی عمارتیں جنگ کے دوران تباہ ہو چکی ہیں جس کے باعث بیشتر بچے گذشتہ 16 ماہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔
ان حالات میں غزہ کے نوجوانوں کا پاکستان آ کر تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ ایک بڑا قدم ہے۔
فلسطینی طالبہ دعا کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے پاکستان آئی ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ہمیں اپنی جان بچا کر یہاں پہنچنا پڑا۔ غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے ہم اپنے گھر اور وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ یہ فیصلہ ہمارے لیے بہت مشکل تھا، لیکن ہمارا مقصد صرف ایک ہے، اور وہ ہے تعلیم حاصل کرنا۔‘
دعا کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں تعلیم حاصل کر کے میں اپنی زندگی کے نئے سفر کا آغاز کرنا چاہتی ہوں، اور مجھے امید ہے کہ ایک دن میں اپنے وطن واپس جا کر اپنے لوگوں کی مدد کر سکوں گی۔‘
غزہ کی زندگی کی تلخ حقیقت
احمد یوسف نامی فلسطینی طالب علم بھی پاکستان آنے والے طلبہ میں شامل ہیں۔
غزہ کے حالات پر بات کرتے ہوئے احمد یوسف نے کہا کہ ’غزہ کی زندگی پہلے پرامن تھی، لوگ اپنے گھروں میں سکون سے زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن اب صورت حال بالکل مختلف ہے۔ جنگ نے ہماری زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔
’میرے خاندان کے بہت سے افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اور بہت سے زخمی ہیں۔ یہاں تک کہ میرے اپنے شہر کے حالات بھی بہت خراب ہیں، اور یہ زندگی جینا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔‘
تعلیمی کیریئر کا نیا آغاز
الیکٹریکل انجنیئرنگ میں ماسٹرز کرنے کے خواہش مند فلسطینی طالب علم مالک نبیل نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان آ کر میں اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ میں اپنے لوگوں کی مدد کر سکوں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مالک نبیل نے کہا کہ ’میری یہ کوشش ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد فلسطین واپس جا کر اپنے علم اور مہارت سے اپنے لوگوں کے حالات بدل سکوں۔‘
مالک کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا ایک بہترین موقع ہے، جسے ہمیں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایم بی بی ایس کی طالبہ، جو غزہ میں اسرائیلی حملوں سے قبل پاکستان آئی تھیں، نے بتایا کہ ’میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے پاکستان میں ہوں، لیکن غزہ کے حالات کا مجھے ہر وقت دکھ رہتا ہے۔
’جنگ نے وہاں کی زندگی کو برباد کر دیا ہے، اور اب اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنا بھی بہت مشکل ہو گیا کیونکہ انٹرنیٹ کی سہولت بھی ناپید ہوچکی ہے۔ میں جانتی ہوں کہ میری فیملی مشکل میں ہے، اور ان کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، مگر میں یہاں بیٹھ کر دعا کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔‘
الخدمت فاؤنڈیشن کا تعلیمی مشن
الخدمت فاؤنڈیشن کراچی کے سی ای او نوید علی بیگ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب تک 255 طلبہ پاکستان پہنچ چکے ہیں اور 17 مزید طلبہ اسلام آباد منتقل کیے گئے ہیں۔
’ہماری کوشش ہے کہ غزہ کے نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھا کر اپنے وطن کی خدمت کر سکیں۔‘
نوید علی نے مزید کہا کہ ’غزہ کی تباہی ایک کربناک حقیقت ہے، مگر ہمارے لیے یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی مدد کریں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غزہ کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں اور اپنی زندگیوں کو بہتر بنائیں۔‘