بی وائی سی نے کس کی میتیں رکھ کر احتجاج کیا، تعین ہونا باقی ہے: ترجمان بلوچستان حکومت/ اردو ورثہ

کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائے سی) کی جانب سے گذشتہ روز سے سریاب روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے جاری دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے آج فائرنگ اور شیلنگ کے الزامات پر ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کا کہنا تھا کہ پولیس نے روڈ کھلوانے کے لیے قانون کے مطابق کارروائی کی۔‘ نیز ’بی وائی سی نے کس کی میتیں روڑ پر رکھ کر احتجاج کیا اس کا تعین ہونا باقی ہے۔‘
میڈیا کو جاری بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ ’بی وائی سی نے قومی شاہراہ بند کر کے عوام کو مشکلات سے دوچار کیا، شاہراہ کی بندش کے باعث کراچی و دیگر شہروں سے آنے والے مسافر اذیت سے دوچار ہوئے۔‘
بی وائے سی کی سربراہ ماہرنگ بلوچ کا دعویٰ تھا کہ آج پولیس کارروائی کے نتیجے میں ان کے ’تین کارکن جان سے گئے اور 13 زخمی ہوئے۔‘
بی وائے سی کے مطابق یہ دھرنا ’بلوچ یکجہتی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں اور مرنے والے افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے نہ کرنے اور شناخت کے لیے نہ لے جانے کے خلاف دیا جا رہا تھا۔‘
کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر 11 مارچ 2025 کو بولان پاس کےعلاقے ڈھاڈر میں علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حملہ کر کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا جس کے بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے مسافروں کو بازیاب کروا لیا اور آپریشن کی تکمیل کے بعد 12 مارچ کی صبح 27 حملہ آوروں کو مارا جا چکا تھا۔
بی وائی سی کے مطابق ’جعفر ایکسپریس پر حملے میں مارے جانے کے بعد جو لاشیں کوئٹہ لائی گئیں اور جن میں سے 13 لاشوں کو کوئٹہ کے کاسی قبرستان میں دفن کیا گیا، ان لاشوں کو خفیہ لوگوں نے دفنایا تھا، پانچ لاشیں سول ہسپتال کوئٹہ میں موجود تھیں۔‘ احتجاج کے دوران بلوچ یک جہتی کمیٹی کا مطالبہ تھا کہ ’لاشوں کو ہمیں دیا جائے نیز کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اٹھائے گئے افراد کو رہا کیا جائے۔‘
احتجاج میں بی وائی سی کی طرف سے رکھی گئی لاشوں کے حوالے سے ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کا مزید کہنا تھا کہ ’جب تک متوفین کی لاشیں ہسپتال لا کر ضابطے کی کارروائی مکمل نہیں کی جاتی، وجوہات کا تعین ممکن نہیں، امن و امان میں خلل ڈال کر افراتفری پھیلائی جا رہی ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہد رند نے میڈیا کو دیے گئے بیان میں کہا کہ ’بی وائی سی کے احتجاج کے دوران مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ اور تشدد کیا، اس دوران لیڈی پولیس کانسٹیبل اور پولیس اہلکاروں سمیت دس زخمی افراد ہسپتال لائے گئے۔‘
’قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، نقض امن کا ارتکاب کیا جائے گا تو حکومت خاموش تماشائی نہیں بن سکتی، عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے جسے پورا کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب بلوچ یک جہتی کمیٹی کی سربراہ ماہرنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’کوئٹہ میں سریاب روڈ پر بی وائی سی کی جانب سے لاپتہ افراد کے لیے دھرنا دیا گیا تھا جس پر سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ اور انسو گیس شیلنگ کی گئی۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’بی وائی سی کارکنوں نے جمعے کو سریاب روڈ یونیورسٹی کے سامنے ڈھائی بجے دھرنا دیا تھا، اس دوران پولیس مسلسل چار گھنٹے تک شیلنگ اور فائرنگ کرتی رہی۔‘
’سریاب کے مختلف گلی کوچوں میں کارکنوں پر فائرنگ کی گئی اور متعدد کارکنوں کو زدوکوب بھی کیا گیا۔‘
’پولیس نے قمبرانی روڈ پر بھی لاپتہ افراد کے دھرنے پر دھاوا بولا، بلوچ یک جہتی کمیٹی نے واقعے خلاف احتجاج کو مزید وسعت دیتے ہوئے کل پورے صوبے میں احتجاج کی کال دی ہے۔‘
کوئٹہ شہر اور گردونواح میں انٹرنیٹ دو روز سے معطل ہے۔