انگلش گلوکارہ جو اپنے بچوں کو سمارٹ فون سے دور رکھتی ہیں/ اردو ورثہ

انگلش گلوکارہ اور اداکارہ پالوما فیتھ کا کہنا ہے کہ ان کی آٹھ سالہ بیٹی نے سمارٹ فون کے لیے ضد کرنا چھوڑ دی ہے، کیونکہ اب وہ لینڈ لائن استعمال کرکے اپنے دوستوں کو پرینک کال کر سکتی ہے۔
یہ گلوکارہ اور دو بچوں کی والدہ ان مشہور شخصیات میں شامل ہیں، جو ایک لاکھ افراد پر مشتمل مہم کا حصہ بنی ہیں، جس کا مقصد بچوں کو سمارٹ فون سے پاک بچپن فراہم کرنا ہے۔
مہم کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میں نے کبھی کبھار اپنے بچوں کو اپنا سمارٹ فون استعمال کرنے دیا اور کچھ وقت کے لیے یہ ٹھیک تھا کیونکہ میں ایک سنگل ماں ہوں اور بعض اوقات ضرورت پیش آتی ہے، لیکن جب میں نے ان سے یہ سہولت چھین لی تو فرق فوری طور پر واضح ہو گیا۔
’وہ بہتر نیند لینے لگے، زیادہ توجہ دینے لگے، ان کی تخلیقی صلاحیتیں بہتر ہو گئیں اور وہ زیادہ خوش مزاج ہو گئے۔کوئی نخرے، کوئی مسائل نہیں، بس ایک شاندار بچپن۔ میری آٹھ سالہ بیٹی بار بار سمارٹ فون کے لیے ضد کر رہی تھی، لیکن جب میں نے ایک لینڈ لائن لگوا دیا، تو اس نے مکمل طور پر ضد کرنا چھوڑ دیا۔
’اب انہیں میرے دوستوں کو پرینک کال کرنا اچھا لگتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے میں آٹھ سال کی عمر میں کیا کرتی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ انہیں وہ تمام غیر ضروری اور سطحی چیزیں نہیں دیکھنی پڑیں گی، جو ایک سمارٹ فون نوعمری میں ان کی زندگی میں لا سکتا تھا۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گلوکارہ اپنے آٹھ اور تین سالہ دو بچوں کی اپنے سابق شوہر لیمن لہسین کے ساتھ مل کر پرورش کر رہی ہیں۔ وہ جو وِکس، بینیڈکٹ کمبر بیچ، جیمی ریڈنپ اور سارہ پاسکو سمیت ان مشہور شخصیات میں شامل ہو گئی ہیں، جنہوں نے بچوں کے سمارٹ فون کے استعمال کو محدود کرنے کے عہد نامے پر دستخط کیے ہیں۔
یہ معاہدہ خاندانوں کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کم از کم 14 سال کی عمر تک سمارٹ فون نہ دیں اور 16 سال کی عمر تک سوشل میڈیا کے استعمال سے باز رکھیں۔
اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد نے ’سمارٹ فون فری چائلڈ ہڈ‘ نامی مہم کے تحت اس عہد نامے پر دستخط کیے ہیں۔
ریگولیٹری ادارے آف کام کی گذشتہ سال شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق پانچ سے سات سال کی عمر کے 24 فیصد بچے اب سمارٹ فون کے مالک ہیں جبکہ تین چوتھائی بچے ٹیبلٹ استعمال کرتے ہیں۔
پانچ سے سات سال کے وہ بچے جو آن لائن میسجز بھیجنے یا وائس اور ویڈیو کالز کرنے کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، ان کی تعداد 2023 میں 59 فیصد سے بڑھ کر 2024 میں 65 فیصد ہو گئی ہے۔
تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا سائٹس کا استعمال اور آن لائن گیمنگ بھی بچوں میں بڑھتی جا رہی ہے۔
حکومت نے کیمبرج یونیورسٹی کو یہ تحقیق کرنے کی درخواست دی ہے کہ سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کا بچوں پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب اراکینِ پارلیمنٹ نے سمارٹ فون کے استعمال پر سخت قوانین کا مطالبہ کیا۔
’سیفر فونز بل‘، جو کہ لیبر رکن پارلیمنٹ جوش مکلسٹر نے پیش کیا تھا، میں تجویز دی گئی تھی کہ ڈیجیٹل رضامندی کی عمر 13 سے بڑھا کر 16 سال کر دی جائے، لیکن حکومتی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس تجویز کو نرم کر دیا گیا ہے۔ اب حکومت اس معاملے پر تحقیق کر کے اس کے اثرات پر رپورٹ جاری کرے گی۔
کنزرویٹیو رکن پارلیمنٹ اور سابق وزیر تعلیم کِٹ مالٹہاؤس نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے اس مسئلے پر ہچکچاہٹ، نرمی اور پسپائی اختیار کی ہے۔‘
’سمارٹ فون فری چائلڈ ہڈ‘ مہم کی ڈائریکٹر ڈیزی گرین ویل نے کہا: ’گذشتہ دہائی میں سمارٹ فونز کے بڑھتے ہوئے استعمال نے بچپن کو یکسر تبدیل کر دیا ہے اور یہ ہمارے دور کے والدین کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔‘
بگ ٹیک (بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں) پر کسی قسم کی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے خاندان ایک ناممکن صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں، یا تو وہ اپنے بچوں کو سمارٹ فون خرید کر دیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ نقصان دہ ہے، یا پھر انہیں باقی سب بچوں سے کٹ کر تنہا ہونے دیں۔
’والدین کے اس عہد نامے پر زبردست ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ کتنے ہی خاندان ایک ساتھ مل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ بچوں کی زندگیاں بگ ٹیک کی لت لگانے والے الگورتھمز کے ذریعے کنٹرول نہیں ہونی چاہییں۔‘