خبریں

کرم: عسکریت پسندوں کے حملے میں چار سکیورٹی اہلکار جان سے گئے، پولیس/ اردو ورثہ

ایک پولیس اہلکار نے اتوار کو بتایا ہے کہ کم از کم چار پاکستانی نیم فوجی اہلکار اس وقت جان سے گئے اور تین زخمی ہوئے، جب مقامی عسکریت پسندوں نے شمال مغربی سرحدی علاقے میں ایک سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کیا۔ 

یہ حملہ ضلع کرم میں کیا گیا جو افغانستان کی سرحد کے قریب صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ہے جہاں حالیہ برسوں میں تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

کرم کے ضلعی ہیڈکوارٹر پارا چنار میں مقیم ایک صحافی علی افضل افضال نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ سنٹرل کرم میں کیا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ شدت پسندوں نے چیک پوسٹ پر حملہ اتوار کو الی الصبح کیا تھا۔

علی افضل نے کہا کہ سنٹرل کرم میں اس واقعے کے پہلے سے ہی شدت پسندوں کے خلاف آپریشن ہو رہا تھا۔

پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ’بھاری اسلحے سے لیس شدت پسندوں نے اتوار کی صبح یہ حملہ کیا۔ کم از کم چار سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے جب کہ سات دیگر زخمی ہوئے۔‘

افغان طالبان کے اگست 2021 میں کابل میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے  پاکستان میں تشدد میں اضافہ ہوا۔

پاکستانی طالبان جو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نام سے جانے جاتے ہیں، شمال مغربی علاقے میں سب سے زیادہ متحرک شدت پسند گروہ ہیں اور باقاعدگی سے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں۔

اسلام آباد کابل کے حکمرانوں پر الزام لگاتا ہے کہ وہ افغان سرزمین پر پناہ لینے والے شدت پسندوں کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں جو پاکستان پر حملے کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تاہم طالبان حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

گذشتہ ہفتے، اسی صوبے کے ضلع بنوں میں خودکش بمباروں نے دو کار بم فوجی کمپاؤنڈ میں دھماکے سے اڑا دیے جس کے نتیجے میں 13 عام شہری اور پانچ فوجی جان سے گئے۔

اسلام آباد میں قائم تجزیاتی ادارے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق، گذشتہ سال پاکستان جو 25 کروڑ کی آبادی کا ملک ہے کے لیے ایک دہائی کا سب سے جان لیوا سال ثابت ہوا۔ ملک میں حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا، جن میں 1600 سے زائد افراد جان سے گئے۔

ضلع کرم میں گذشتہ سال 21 نومبر کو حالات تب کشیدہ ہوئے تھے، جب لوئر کرم کے علاقے بگن میں گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں کم از کم 42 افراد جان سے چلے گئے تھے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی واقعے کے اگلے روز 22 نومبر کو بگن کے مرکزی بازار اور قریبی گھروں کو مشتعل مسلح افراد نے جلا دیا تھا، جس کے بعد فریقین کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔ 

رواں سال جنوری کے اوائل میں سرکاری سرپرستی میں ایک گرینڈ جرگہ منعقد ہوا اور فریقین نے ایک امن معاہدہ کیا لیکن معاہدے کے کچھ روز بعد خوراک اور اشیائے ضرورت کے قافلے کے انتظامات کے لیے آئے ہوئے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود پر حملہ ہوا، جس میں وہ زخمی ہو گئے تھے۔ 

اس کے بعد مرکزی شاہراہ بھی بند رہی جبکہ بگن کے متاثرین نے مرکزی شاہراہ پر اپنے مطالبات کے لیے دھرنا بھی دیا، جن کا مطالبہ ہے کہ بگن بازار اور گھروں کو پہنچنے والے نقصان کا معاوضہ دیا جائے۔

ضلع کرم میں حالات پر قابو پانے کے لیے ایپکس کمیٹی نے دونوں فریقین سے بھاری اسلحہ جمع کرنے اور تمام بنکرز خالی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

31 جنوری کو ضلع کرم کی تحصیل اپر کرم میں پولیس کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر (ریونیو) سعید منان خان کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے زخمی کر دیا تھا۔  




Source link

رائے دیں

Back to top button
New currency notes in Pakistan پاکستانی کرنسی نوٹوں کا نیا ڈیزائن شاہ عبداللطیف بھٹائی کے عرس پر کل سندھ میں عام تعطیل
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے