قومی یکجہتی کانفرنس اعلامیہ: ’پارلیمان کے وجود کی اخلاقی، سیاسی، قانونی حیثیت کا فقدان‘/ اردو ورثہ

پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان کی اسلام آباد میں قومی یکجہتی کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’موجودہ پارلیمان کے وجود کی اخلاقی، سیاسی اور قانونی حیثیت میں فقدان‘ ہے اورملک کو مستحکم بنانے اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے قومی ڈائیلاگ کے ذریعے متفقہ حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
دو روزہ قومی یکجہتی کانفرنس کے جمعرات کو اختتام پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے ملک کی قومی قیادت سے ان کے حالات اور معاملات کو پس پشت ڈالنے کی تلقین کرتے ہوئے ملکی ترقی کے لیے متفقہ حکمت عملی پر عمل در آمد کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا۔
اعلامیے میں پاکستان کے موجودہ بحران کا واحد حل آزادانہ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتیں اس اعلامیے کے مندرجات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اجتماعی اور عملی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد کرتی ہیں اور یہ جدوجہد پاکستان کے مسائل کے حل اور عوام کی فلاح کو یقینی بنانے تک جاری رہے گی۔‘
اسلام آباد کی انتظامیہ اور دوسرے کئی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کو مبینہ طور پر کانفرنس میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی۔ تاہم اپوزیشن پارٹیز کا اجتماع دونوں دن جاری رہا۔
جس ہوٹل میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی کانفرنس ہوئی اس کے باہر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری دیکھی گئی، جب کہ پاکستان عوامی پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ہوٹل میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش بھی کی گئی۔
اعلامیے کے مطابق کانفرنس میں شریک جماعتوں کے رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ ’پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتیں اس علامیے کے مندرجات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اجتماعی عملی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد کرتی ہیں اور یہ جدوجہد پاکستان کے مسائل کے حل اور عوام کی فلاح کو یقینی بنانے تک جاری رہے گی۔‘
اپوزیشن جماعتوں کے اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’ملک کے مسائل کا حل صرف اور صرف آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی میں ہے۔‘
تاہم اعلامیے میں ’موجودہ پارلیمان کے وجود کی اخلاقی، سیاسی اور قانونی حیثیت کے فقدان‘ کا ذکر بھی کیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ’8 فروری 2024 کے دھاندلی شدہ انتخابات کے نتائج ملک کی موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی بحران کا ذمہ دار ہیں۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپوزیشن جماعتوں نے آئین کی روح سے متصادم تمام ترامیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے آئین میں انسانی حقوق کی بے دریغ پامالی کو ملک میں قانون کی حکمرانی کی ’مکمل نفی اور اس غیر نمائندہ حکومت کی فسطایت کی واضح دلیل قرار دیا۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہمارا آئین کسی پاکستانی شہری کو سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کے لیے ہراساں، گرفتار یا جیل میں ڈالنے کی اجازت نیہں دیتا اور تمام سیاسی اسیروں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ہم عوام اور میڈیا کی زبان بندی کرنے کے لیے کی گئی پیکا ترامیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
حزب اختلاف کی قومی کانفرنس کے اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’بلوچستان، خیبر پختونحواہ، پنجاب اور سندھ میں لوگوں کی شکایات اور شکوؤں، خصوصاً پانی کے وسائل کی تقسیم 1991 کے واٹر ایکارڈ کے مطابق ہونا چاہیے، پر فوری توجہ کی ضرورت ہے اور ان کو حل کیے بغیر ملک میں امن عامہ کی روز بروز بگڑتی صورت حال کو سنبھالا نہیں دیا جا سکتا۔‘