انڈیا نے پہلی مرتبہ خلائی جہازوں کو خلا میں ایک دوسرے ساتھ منسلک کرنے کا کامیاب تجربہ کرکے تاریخ رقم کر دی۔ اس طرح انڈیا یہ کامیابی حاصل کرنے والے چند ممالک کے خصوصی کلب میں شامل ہو سکتا ہے۔
اس تاریخی مشن کا نام سپیس ڈاکنگ ایکسپیریمنٹ یا سپاڈیکس ہے جو انڈیا کے اپنے تیار کردہ پی ایس ایل وی راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا۔ خلائی جہاز آندھرا پردیش کے ستیش دھون خلائی مرکز سے مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے روانہ ہوا۔
تاہم خلائی جہاز کی روانگی میں خلاف معمول دو منٹ کی تاخیر ہوئی جسے انڈیا کے خلائی تحقیق کے ادارے (اسرو) نے خلا میں ’ٹریفک جام‘ کا نتیجہ قرار دیا جس کی وجہ اسی مدار میں دیگر مصنوعی سیاروں کا ایک دوسرے کے قریب آنا ہے۔
راکٹ کے فضا میں بلند ہونے کے تقریباً 15 منٹ بعد اسرو نے اعلان کیا کہ ’پی ایس ایل وی سی60 نے سپیس ڈاکنگ تجربے اور 24 دیگر آلات کو کامیابی کے ساتھ لانچ کیا۔‘ اس وقت تک راکٹ 470 کلومیٹر کی بلندی پر پہنچ چکا تھا۔
اسرو کے چیئرمین ایس سوم ناتھ نے کہا کہ ’راکٹ نے سیٹلائٹس کو درست مدار میں پہنچا دیا۔‘
یہ مشن جو خلا میں مصنوعی سیاروں کے آپس میں جڑنے کے عمل کی جانچ کے لیے ہے، اسرو کے مستقبل کے منصوبوں، بشمول خلائی سٹیشن کے قیام کے لیے انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
اسرو نے اپنی بلاگ پوسٹ میں کہا کہ ’یہ ٹیکنالوجی انڈیا کے خلائی عزائم کے لیے انتہائی اہم ہے۔ مثال کے طور پر چاند پر جانے والا انڈین مشن، چاند سے نمونے واپس لانا، بھارتیہ انترکش سٹیشن کی تعمیر اور اس کا کام کرنا وغیرہ۔
’اس مشن کے ذریعے انڈیا خلا میں ڈاکنگ ٹیکنالوجی حاصل کرنے والا دنیا کا چوتھا ملک بننے کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب تک صرف امریکہ، روس، اور چین نے کامیابی سے سپیس ڈاکنگ ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے۔
اشوکا یونیورسٹی کے آسٹرو فزیسسٹ سومک رے چوہدری نے روئٹرز کو بتایا: ’اگر یہ مشن کامیاب ہو گیا تو یہ اسرو کے لیے نئی مارکیٹ کے دروازے کھول سکتا ہے کہ وہ ان عالمی مشنز کو خلا بھیجنے میں مدد فراہم کرے جنہیں ’ڈاکنگ سہولت یا خلا میں جوڑے جانے‘ کی ضرورت ہو۔
اس مشن کے دوران دو سیٹلائٹس، جن کا وزن تقریباً 220 کلوگرام ہے، مدار میں چھوڑے جائیں گے اور ان کے آپس میں جڑنے کے بعد توانائی کی منتقلی کے عمل کا مظاہرہ کیا جائے گا۔
ہر سیٹلائٹ جدید آلات سے لیس ہے، جن میں تصویریں لینے والا نظام اور خلا میں تابکاری کا پتہ لگانے کا آلہ شامل ہے جو مستقبل میں ایسے خلائی مشنز کے لیے ڈیٹا فراہم کرے گا جن میں عملہ بھی ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خلا میں دو خلائی گاڑیوں کے درمیان اس طرح کی ڈاکنگ، خلائی سٹیشنوں کے آپریشن، خلائی جہاز کے کنٹرول، اور آلات خلا میں بھیجنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
اسرو کے مطابق یہ اہم ڈاکنگ ٹیسٹ تقریباً ایک ہفتے میں سات جنوری کے آس پاس کیا جائے گا۔
خلائی تحقیقی کے انڈین ادارے نے بتایا کہ یہ ٹیسٹ دو خلائی گاڑیوں کے درمیان رفتار میں احتیاط کے ساتھ ردوبدل کرنے پر مشتمل ہو گا جس میں ’دو سیٹلائٹس کے درمیان فاصلے کو بتدریج کم کیا جائے گا یعنی پانچ کلومیٹر، ڈیڑھ کلومیٹر، 500 میٹر، 225 میٹر، 15 میٹر اور تین میٹر تک۔‘ اور آخر کار انہیں آپس میں جوڑ دیا جائے گا۔
یہ مشن ’اور بھی چیلنجنگ‘ تصور کیا جا رہا ہے کیوں کہ ان دو گاڑیوں کا حجم اور وزن بہت کم ہے، جس کی وجہ سے بڑے خلائی جہازوں کے مقابلے میں زیادہ باریکی اور درستی کی ضرورت ہو گی۔
اسرو کا کہنا ہے کہ ’کامیاب ڈاکنگ اور سختی سے جڑنے کے بعد دونوں سیٹلائٹس کے درمیان برقی توانائی کی منتقلی کا مظاہرہ کیا جائے گا جس کے بعد دونوں سیٹلائٹس کو الگ کر دیا جائے گا تاکہ وہ اپنے اپنے پے لوڈز کے آپریشن کو شروع کر سکیں۔ اس مشن کے کی تکمیل کی مدت دو سال تک ہے۔‘
انڈین خلائی ادارے کو امید ہے کہ یہ مشن خودکار ڈاکنگ کے لیے بنیاد فراہم کرے گا جو انڈیا کے 2028 کے منصوبے چندریان فور کے لیے ضروری ہے جس میں چاند سے نمونے واپس لائے جائیں گے۔
پیر کو خلائی مشن کی روانگی کے معاملے میں انڈیا میں پہلی بار ایسا ہوا کہ راکٹ اور سیٹلائٹس کو کسی سرکاری ادارے کی بجائے نجی کمپنی اننتھ ٹیکنالوجیز نے مربوط کیا اور ان کی جانچ کی۔