پاکستان فوج کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اتوار کو کہا کہ فوج پرعزم ہے کہ ’فتنہ الخوارج‘ اور ان کے سہولت کاروں اور مالی معاونین کے خاتمے تک ان کا پیچھا جاری رکھے گی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ آرمی چیف نے وانا، جنوبی وزیرستان کا دورہ کیا، جہاں ان کا استقبال کور کمانڈر پشاور نے کیا۔
آرمی چیف کا دورہ ایک ایسے وقت میں آیا جب ایک روز قبل جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں سکیورٹی فورسز کی چوکی پر حملے میں 16 اہلکار جان سے چلے گئے جبکہ آئی ایس پی آر کے مطابق آٹھ عسکریت پسند بھی مارے گئے تھے۔
دورے میں جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ مسلح افواج کے جوان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اس قوم کے اصل ہیروز ہیں، جن کی بہادری پوری قوم کے لیے ایک مثال ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’شہدا پاکستان کا فخر ہیں اور ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان فوج، قوم کی پرعزم حمایت کے ساتھ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر، ملک بھر میں پائیدار امن و استحکام کی بحالی کو یقینی بنائے گی، دہشت گردی اور انتہا پسندی کو اس کی تمام اشکال میں ختم کرنے کے اپنے عزم میں ثابت قدم رہے گی۔‘
اس موقعے پر جنرل عاصم منیر نے فوجی جوانوں کے حوصلے کی تعریف کی اور کہا کہ قوم کو ان کی قربانیوں پر فخر ہے۔
ملک میں سکیورٹی فورسز کو اس وقت عسکریت پسندی کی نئی لہر کا سامنا ہے۔ ہفتے کو افغانستان کی سرحد کے قریب فوجی چوکی پر حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم نے یہ اپنے سینیئر کمانڈروں کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے کیا ہے۔‘
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق ایک سینیئر انٹیلی جنس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ محاصرہ آدھی رات کے بعد شروع ہوا اور تقریبا دو گھنٹے تک جاری رہا جب تقریباً 30 عسکریت پسندوں نے پہاڑی چوکی کو تین اطراف سے نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ’حملے میں 16 فوجی شہید اور پانچ شدید زخمی ہوئے۔ عسکریت پسندوں نے چیک پوسٹ پر موجود وائرلیس مواصلاتی آلات، دستاویزات اور دیگر اشیا کو آگ لگا دی۔‘
اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق گذشتہ سال اموات کی تعداد چھ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی جس میں 1500 سے زائد عام شہری، سکیورٹی اہلکار اور عسکریت پسند مارے گئے تھے۔
انٹیلی جنس کے سینیئر اہلکار کے مطابق جنوبی وزیرستان میں حالیہ حملہ ’اس خطے میں رواں سال کا سب سے خطرناک حملہ‘ تھا۔