fbpx
خبریں

کراچی کا تاریخی خالق دینا ہال تزئین و آرائش کے بعد کیسا دِکھتا ہے؟/ اردو ورثہ

کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ (سابق بندر روڈ) پر واقع تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی یادوں کی حامل تاریخی عمارت غلام حسین خالق دینا المعروف خالق دینا ہال کو تزئین و آرائش کے بعد عوام الناس کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

اس ہال کو قیام پاکستان سے قبل کراچی کی معروف شخصیت غلام حسین خالق دینا نے 1906 میں تعمیر کروایا تھا۔ کئی سالوں سے اس عمارت کی مرمت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی خوبصورتی مانند پڑ گئی تھی۔

کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن نے ایک سماجی تنظیم کی مدد سے اس ثقافتی ورثے کی حامل عمارت کی تزئین و آرائش کرکے اسے عوام کے لیے کھول دیا ہے تاکہ اس عمارت میں نمائش، کتب میلے یا دیگر تقریبات منعقد کی جاسکیں۔

کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے شعبہ ثقافت و کھیل کے سینیئر ڈائریکٹر مہدی ملوف کے مطابق اس عمارت کی تزئین و آرائش بالکل اس احتیاط کے ساتھ کی گئی ہے کہ اس کے کسی بھی حصے کو نقصان نہ پہنچے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مہدی ملوف نے کہا: ’اس تاریخی عمارت کی تزئین و آرائش کے لیے اس کے فرش، دیواروں اور دیگر اشیا کو اصلی حالت میں بحال کیا گیا ہے۔ اس عمارت میں لگی لائٹیں اور پنکھے تبدیل کرنے کی بجائے پہلے سے موجود اشیا کو اصل حالت میں بحال کیا گیا ہے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’عمارت کے ہر حصے کو حتیٰ کہ دروازوں کی کنڈیوں اور تالوں کو بھی مرمت کرکے استعمال میں لایا گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ عمارت کراچی کی تاریخی اہمیت رکھنے والی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ ’تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے متعلق اس عمارت میں کئی اجلاس منقعد ہوئے، اس لیے اس عمارت کو ثقافتی ورثے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘

مہدی ملوف کے مطابق انگریز دور کے دوران اس عمارت کو عدالت کا درجہ دے کر ’تحریک خلافت‘ کے رہنماؤں کے مقدمات بھی یہاں سنے گئے۔

نو جولائی 1921 کو عیدگاہ میدان میں منعقد خلافت کانفرنس کی پاداش میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے ساتھیوں کے بغاوت کے مقدمے کی سماعت اسی عمارت میں ہوئی اور بعد میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے ساتھیوں کو دو سال قیدِ بامشقت سنائی گئی تھی۔

بقول مہدی ملوف: ’بغاوت کے مقدمے کے دوران مولانا محمد علی جوہر اور ان کے ساتھیوں کو جس کٹہرے میں کھڑا کرکے مقدمہ چلایا گیا تھا، وہ تاریخی کٹہرا بھی عمارت کی تزئین و آرائش کے ساتھ اصلی حالت میں بحال کر دیا گیا ہے۔

’اس کے علاوہ دسمبر 1947 میں قائد اعظم کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ کا غیر معمولی اجلاس بھی اسی ہال میں منعقد ہوا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ال انڈیا مسلم لیگ سے آل انڈیا کے الفاظ ختم کر دیے جائیں۔‘

امید ہے کہ اس قسم کی عمارتیں آنے والی نسلوں کو بھی بحالی کے بعد ماضی کی کہانیاں سناتی رہیں گی۔  




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے