برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے جمعرات کو ہوم سکولنگ (سکول سے نکال کر گھر پر تعلیم دینے) کے دوران بچوں کے لیے بہتر حفاظتی اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 10 سالہ پاکستانی نژاد سارہ شریف کے وحشیانہ قتل کے بعد ’ایسے سوالات جنم لے رہے ہیں جن کے جواب دینے کی ضرورت ہے۔‘
سارہ شریف کے والد اور سوتیلی ماں کو بدھ کو ایک مقدمے میں قتل کا مجرم قرار دیا گیا جس میں بچی کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی، تشدد اور انتباہی علامات کے باوجود بچوں کو تحفظ کرنے والی سروسز کی مداخلت میں ناکامی کی لرزہ خیز تفصیلات سامنے آئیں۔
سارہ کی موت سے مہینوں پہلے بچی کے والد عرفان شریف نے اسے گھر میں پڑھانے کے لیے اس وقت سکول سے نکال دیا تھا جب سارہ کی ٹیچر نے چائلڈ سروسز کو اس کے زخموں کی اطلاع دی تھی۔
اس وقت چائلڈ سروسز نے واقعے کی تحقیقات کی تھیں لیکن ان کے والدین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
وزیر اعظم سٹارمر نے کہا کہ ’یہ خوفناک معاملہ اس بات کو یقینی بنانے کے بارے میں تھا کہ یہاں بچوں کے لیے حفاظتی اقدامات موجود ہیں، خاص طور پر ان بچوں کے لیے جو گھر میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔‘
برطانوی محکمہ تعلیم نے کہا کہ وہ ’پہلے سے ہی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کارروائی کر رہا ہے کہ کوئی بچہ تشدد کا شکار بنے اور ہوم سکولنگ میں بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ تحفط فراہم کیا جائے۔‘
ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے ترجمان نے کہا کہ حکومت ’اس بات کو یقینی بنانے کا ارادہ رکھتی ہے کہ سکول اور اساتذہ بچوں کے تحفظ سے متعلق فیصلوں میں شامل ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ قانون سازی میں مزید تفصیلات شامل کی جائیں گی۔
مجوزہ قانون کے تحت والدین کو مجوزہ تبدیلیوں کے تحت خطرے سے دوچار بچوں کو ہوم سکولنگ کے لیے مقامی اتھارٹی کی منظوری بھی درکار ہوگی اور ان بچوں کو رجسٹر کیا جائے گا جو سکول میں نہیں ہیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سارہ شریف اگست 2023 میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھی، جس کے جسم پر کئی برسوں کی بدسلوکی کا نشانہ بننے کے بعد ٹوٹی ہوئی ہڈیاں، جلنے اور کاٹنے کے نشانات بھی شامل تھے۔
بچی کی حقیقی والدہ اولگا شریف سے علیحدگی اور بینش بتول سے دوسری شادی کے بعد اولگا کی طرف سے والد کے خلاف بدسلوکی کے الزامات کے باوجود عرفان شریف نے قتل سے صرف چار سال پہلے یعنی 2019 میں سارہ کی تحویل حاصل کی۔
چائلڈ کمشنر ریچل ڈی سوزا نے کہا کہ سارہ شریف کی موت نے بچوں کے تحفظ کے نظام میں گہری کمزوریوں کو اجاگر کیا۔
ڈی سوزا نے کہا کہ یہ ’پاگل پن‘ ہے کہ کسی خطرے سے دوچار بچے کو سکول سے نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدسلوکی کا شکار ہونے والے مشتبہ بچوں کی ہوم سکولنگ پر پابندی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔
جمعرات کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں اپریل 2024 تک 485 بچے بدسلوکی یا غفلت کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یا انہیں شدید نقصان پہنچا۔
ایک عدالت نے بدھ کو 10 سالہ سارہ شریف کے والد اور سوتیلی والدہ پر ان کے قتل کی فرد جرم عائد کر دی۔ دونوں کو اگلے منگل کو سزا سنائی جائے گی۔