fbpx
خبریں

محمد البشیر مارچ 2025 تک شام کے عبوری وزیراعظم مقرر/ اردو ورثہ

شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد محمد البشیر کو عبوری حکومت وزیر اعظم بنا دیا گیا ہے جو یکم مارچ 2025 تک اس عہدے پر فائز رہیں گے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق محمد البشیر نے منگل کو ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اپنے بیان میں اس تقرری کا اعلان کیا۔

محمد البشیر اس سے قبل باغیوں کی زیر قیادت سالویشن حکومت کے سربراہ تھے جو 12 دن کی تیز رفتار کارروائی کے بعد دمشق پر قابض ہوئی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی نے منگل کو کہا کہ نئی حکومت ان اعلیٰ عہدے داروں کی فہرست جاری کرے گی جو ’شامی عوام پر تشدد میں ملوث‘ ہیں۔

ابو محمد الجولانی جو اب اپنا اصل نام احمد الشرع استعمال کر رہے ہیں، نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم ان فوجی اور سکیورٹی افسروں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والوں کو انعامات دیں گے جو جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ان افراد کی حوالگی کا مطالبہ بھی کریں گے جو ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔

قبل ازیں احمد الشرع نے پیر کو اقتدار کی منتقلی پر بات چیت کا آغاز کیا۔ ایک دن قبل ان کی حزب اختلاف کی اتحادی فوجوں نے ڈرامائی انداز میں سابق صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹا دیا جس کے ساتھ ان کے خاندان کی پانچ دہائیوں پر محیط حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا۔

جب اسلام پسند باغی دارالحکومت دمشق میں داخل ہوئے تو بشارالاسد وہاں سے فرار ہو گئے۔

انہوں نے 2011 میں شروع ہونے والی جمہوریت کی تحریک پر کریک ڈاؤن کی نگرانی کی جس کے نتیجے میں جنگ چھڑ گئی جس نے پانچ لاکھ افراد کی جان لی اور آدھے ملک کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا جن میں سے لاکھوں افراد نے بیرون ملک پناہ لی۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

باغیوں کے ٹیلی گرام چینلز پر شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ احمد الشرع نے سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم محمد الجلالی سے ملاقات کی ’تاکہ اقتدار کی منتقلی کے لیے ہم آہنگی پیدا کی جا سکے جو شامی عوام کو خدمات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔‘

دوسری جانب اے ایف پی کے نمائندوں نے بتایا ہے کہ ہزاروں شامی شہری پیر کو ایک جیل کے باہر جمع ہوئے جو بشار الاسد کی حکمرانی کے ’بدترین مظالم‘ کی علامت کے طور پر جانی جاتی ہے، تاکہ اپنے رشتہ داروں کی تلاش کر سکیں، جن میں سے کئی تو برسوں سے دمشق کے باہر واقع صیدنایا جیل میں قید تھے۔

65  سالہ عائدہ طہٰ نے کہا کہ ’میں دیوانہ وار بھاگی‘ تاکہ جیل تک پہنچ سکوں۔ لیکن مجھے پتا چلا کہ کچھ قیدی اب بھی تہہ خانوں میں موجود ہیں۔ وہاں تین یا چار منزلیں زیر زمین ہیں۔‘ وہ  اپنے بھائی کی تلاش میں تھیں جنہیں 2012 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

رہائی پانے والے قیدیوں کے ہجوم دمشق کی سڑکوں پر گھومتے نظر آئے، جنہیں ان کے مصائب کے نشانات سے پہچانا جا سکتا تھا۔ وہ اذیت کے باعث اپاہج، بیماری سے نڈھال اور بھوک کے باعث ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہو چکے تھے۔

شامی وائٹ ہیلمٹس گروپ کے امدادی کارکنوں نے پہلے کہا کہ وہ صیدنایا جیل کے ممکنہ طور پر خفیہ دروازوں یا تہہ خانوں کو تلاش کر رہے ہیں۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے