پاکستان نے سابق سفیر صادق خان کو ایک مرتبہ پھر افغانستان کے لیے اسلام آباد کا خصوصی نمائندہ نامزد کیا ہے اور مبصرین کی خیال میں اس فیصلے کا مقصد افغان طالبان سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ہے۔
صادق خان 2008 سے 2014 تک کابل میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں، جب کہ 2020 میں انہیں پہلی مرتبہ کابل کے لیے نمائندہ خصوصی نامزد کیا گیا تھا۔
2023 میں ان کے استعفے کے بعد آصف درانی کو عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔
اس سے قبل صادق خان 1998 سے 2000 تک امریکہ میں پاکستان کے نائب سفیر تھے، جب کہ 90 کی دہائی میں چین اور برسلز میں بھی پاکستانی سفارت خانے میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔
دوبارہ نمائندہ خصوصی کیوں چنا گیا؟
اسلام آباد میں مقیم صحافی اور افغان امور کے ماہر طاہر خان نے بتایا کہ آصف درانی کے بعد تقریباً دو مہینے تک پاکستان نے ضرورت کے باوجود افغانستان کے لیے کسی کو خصوصی نمائندہ نامزد نہیں کیا۔
طاہر خان نے کہا کہ ’ماسکو کانفرنس جیسے اجلاسوں میں افغانستان کے حوالے سے مؤقف دینے کے لیے پاکستان کا خصوصی نمائندے کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے اور اسی وجہ سے صادق خان کی نامزدگی عمل میں آئی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین سفارتی تعلقات بہت خراب ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صادق خان جیسے سینیئر سفارت کار کی ضرورت پڑی، جو پہلے بھی کابل میں سفیر رہ چکے ہیں۔
طاہر خان کے مطابق نیشنل سکیورٹی ڈویژن کے سیکریٹری رہنے کے باعث صادق خان اس پوزیشن کے لیے موزوں ترین ہیں، جب کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ سے کابل کے تعلقات کے لیے بھی ایک نمائندے کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں صادق خان کے علاوہ ایسا کوئی مجھے نہیں نظر آتا جو افغانستان کے معاملات کو بہتر طریقے سے ہینڈل کر سکے اور کابل میں ان کا مؤثر کردار ہو، جس سے پاکستان اور طالبان کے مابین تناؤ کم ہو سکے۔‘
طاہر خان کے مطابق: ’ دوسری وجہ صادق خان کا افغان طالبان کے علاوہ مخالف گروپوں کے ساتھ بھی بہتر تعلقات ہونا ہیں۔
’عمران خان کے دور اقتدار میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع ہوئے تو اس وقت صادق خان اہم پوزیشن پر تعینات تھے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صادق خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے گاؤں زیدہ سے ہے اور طاہر خان کے مطابق ان کی خصوصیات میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ ایک خاموش سفارت کار ہیں۔
طاہر خان نے بتایا، ’صاق خان زیادہ تر میڈیا سے دور رہتے ہیں اور خاموش سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں۔
’ان کا اپنا ایک انداز ہے اور سمجھتے ہیں کہ خاموش سفارت کاری سے کام نکل سکتا ہے۔‘
طاہر خان نے افغان طالبان اور پاکستان کے مابین تعلقات کے بارے میں بتایا کہ موجودہ وقت میں دونوں کے مابین رشتے بہتر نہیں ہیں اور جب تک ٹی ٹی پی کا مسئلہ ہے تو تعلقات ایسے ہی رہیں گی۔
ان کے خیال میں افغان طالبان اب سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ بارڈر سے ٹی ٹی پی کو ہٹانے کی بات میں صداقت ہے۔
رفعت اللہ اورکزئی پشاور میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صادق خان ایک منجھے ہوئے سفارت کار ہیں اور افغانستان معاملات کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا، ’عام تاثر یہی ہے کہ صادق خان پشتون ہونے کی وجہ سے صرف پشتونوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے دور میں اس نظریے کو غلط ثابت کیا ہے۔
’صادق خان طالبان کے علاوہ بھی افغانستان کی دوسری قومیتوں کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتے ہیں۔‘
رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق 2008 میں جب وہ پہلی مرتبہ کابل میں سفیر منتخب ہوئے تو پنج شیر میں احمد شاہ مسعود کی قبر پر پھول چھڑائے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی۔