یہ 80 کی دہائی کا قصہ ہے، جب جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ایک ہائی سکول کے طالب علم کو اچانک زبان اردو سیکھنے اور بولنے کا شوق اٹھتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ آئندہ ایک دہائی کے دوران پاکستان آ کر غالب اور میر کی بولی پڑھتے اور اس میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔
پاکستان میں اپنے قیام کے دوران بولیاں سیکھنے کے دلدادہ اس جاپانی نوجوان کی توجہ سندھ دھرتی میں بولی جانے والی بولی سندھی کی طرف مبذول ہوتی ہے اور وہ یہ زبان بھی سیکھ لیتے ہیں۔
وہی نوجوان پروفیسر مامیا کین ساکو ہیں، جو ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن سٹڈیز میں شعبہ اردو کے سربراہ کی حیثیت سے جنوبی ایشیا میں بولی جانے والی یہ زبان پڑھاتے ہیں۔
پروفیسر مامیا کین ساکو آج کل کراچی میں جاری عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان میں ہیں۔
اردو سیکھنے کی کہانی
زبانیں سیکھنے کے ان کے شوق کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر مامیا کین ساکو کا کہنا تھا کہ ’1984 میں جب میں ہائی سکول کا طالب علم تھا، تب مجھے خیال آیا کہ جاپانی اور انگریزی کے علاوہ کوئی ایک اور زبان سیکھی جائے۔ مگر اس وقت مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کون سی زبان سیکھنا چاہیے۔
’پھر میں نے دنیا کا نقشہ دیکھنا شروع کیا اور آخر کار خیال آیا کہ جنوبی ایشیا کی کوئی زبان سیکھنا چاہیے۔‘
اس دوران نوجوان ساکو کو جاپانی زبان میں شاہراہ ریشم (سلک روڈ) پر ایک ڈاکیومینٹری دیکھنے کا اتفاق ہوا، جو ان کا اس خطے اور اردو سے پہلا تعارف تھا اور انہوں نے سوچا کہ کیوں نا اردو ہی سیکھی جائے۔
پھر کیا تھا ساکو دسمبر 1988 میں اسلام آباد میں لینڈ کرتے ہیں اور زبان اردو سیکھنے کی غرض سے ایک ادارے میں چھ مہینے کے کورس میں داخلہ لیتے ہیں۔
اردو سیکھنا ایک کورس میں ممکن نہیں اس لیے پروفیسر ساکو کو اس سلسلے میں کئی مرتبہ پاکستان آنا پڑا اور آخر کار انہوں نے اردو ادب میں ایم فل کر لیا۔
سندھی سیکھنے کی کہانی
سندھی زبان سیکھنے کی کہانی سناتے ہوئے پروفیسر مامیا کین ساکو نے کہا کہ 1980 کی دہائی کے آخر میں سندھ یونیورسٹی کے ایک استاد ان کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے ٹوکیو آئے۔
’ان پروفیسر صاحب سے ملاقات ہوئی تو سندھ اور سندھی زبان سے متعلق جان کاری ہوئی۔‘
زبانیں سیکھنے کے شوقین ساکو کو سیکھنے کے ایک اور بولی مل گئی اور اس مرتبہ انہوں نے سندھی سیکھنے کا تہیہ کر لیا۔
ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کراچی میں اردو سیکھتے ہوئے 1990 سے 1992 کے دوران میں اکثر سندھ یونیورسٹی جامشورو کے سندھی شعبے میں جاتا تھا اور وہاں کے اساتذہ سے سندھی زبان سیکھتا تھا۔‘
پروفیسر ساکو نے سندھی زبان سیکھی اور بول بھی سکتے ہیں تاہم مشق نا ہونے کے باعث یہ زبان انہیں بھولتی جا رہی ہے۔
پروفیسر ساکو کا کہنا تھا: ’میں نے روانی سے سندھی بولنا سیکھ لیا تھا۔ ٹوکیو میں ابھی تک مجھے کوئی سندھی نہیں ملا۔ سندھی کی پریکٹس نہیں کر سکتا۔ اس لیے اب سندھی میں روانی سے تو نہیں بول سکتا مگر اس کے باوجود یہ زبان اچھی خاصی بول لیتا ہوں۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جاپان میں اردو
جاپان میں اردو زبان کے کورسز پر بات کرتے ہوئے پروفیسر ساکو نے کہا کہ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن سٹڈیز میں دنیا کی 27 مختلف زبانیں پڑھائی جاتی ہیں، جن میں جنوبی ایشیا کی ہندی، اردو، بنگالی اور سندھی زبانیں شامل ہیں۔
’ان زبانوں کو پڑھانے کے لیے ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن سٹڈیز میں باقاعدہ شعبے قائم ہیں، جہاں ہر سال ہر شعبے میں تقریباً 15 طلبہ بیچلرز کے لیے داخلہ لیتے ہیں۔‘
پروفیسر مامیا کین ساکو کے مطابق ’مختلف زبانوں بشمول اردو پڑھانے والے شعبے میں اس زبان کا تھیٹر پیش کیا جاتا ہے۔ اس ڈرامے میں اداکاری کے لیے طلبہ کو اپنے ڈائیلاگ اسی زبان میں بولنے ہوتے ہیں اور اس سرگرمی سے زبان کو جلد سیکھنے میں مدد ملتی ہے۔‘
پاکستانی کھانے
پاکستانی کھانوں میں اپنے پسندیدہ کھانوں کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں پاکستانی کھانوں میں سب سے زیادہ نرگسی کوفتے پسند ہیں۔ اس کے علاوہ چپلی کباب اور حیدرآباد کی ربڑی انہیں بہت پسند ہے۔
پاکستانی موسیقی
پاکستانی موسیقی پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر مامیا کین ساکو نے کہا ’مجھے پاکستانی موسیقی میں استاد نصرت فتح علی خان اور راحت فتح علی خان کی قوالیاں بے حد پسند ہیں۔‘