لاہور میں سردی شاید آ ہی گئی ہے۔ دن نکلتا ہے تو دھوپ تیز ہوتی ہے، مگر سائے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ شام پڑتی ہے تو خنکی بڑھتی ہے، یہاں تک کہ نصف شب یقین ہو جاتا ہے کہ سردی آ گئی ہے۔
پچھلے دنوں لاہور پہ سموگ نے حملہ کیا تو سب بوکھلا گئے اور اس بوکھلاہٹ میں سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ ایسے اقدامات عرف عام میں ’کاسمیٹک‘، ’ڈنگ ٹپاؤ‘ یا ’سمٹومیٹک‘ ریلیف کہلاتے ہیں۔
ہواؤں کا رخ بدلا اور ایک صبح لاہوری جاگے تو دھند کا دبیز پردہ چاک ہو چکا تھا اور سموگ کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔
اس دھندھواں کے لیے باربی کیو، انڈیا کی دیوالی اور چاول کے کچرے کو جلانے کا الزام لگانے والے سوچتے رہ گئے کہ ہوا کیا ہے؟ سب کچھ وہی ہے، مگر سموگ کہاں غائب ہو گئی؟
سموگ کہیں نہیں گئی، ہمارے چاروں طرف ہے صرف فی الحال نظر نہیں آ رہی۔
لاہور کی بے ہنگم آبادی، لاہور کے باہر اور اس کے باہر بھی لاہور بسانے کے احمقانہ منصوبے، اس دھند کو گاڑھا کرتے جائیں گے۔
کرنا کیا چاہیے؟ شاید کسی کو بھی پتہ نہیں اور شاید سب کو پتہ ہے۔ بہت سوچ سوچ کے ہم نے وزارت ماحولیات بھی بنا لی ہے۔ ہر حکومت کسی کو بقول شخصے ’انہے وا‘ یہ وزارت پکڑا بھی دیتی ہے مگر صرف وزارت کی مدت گزاری جاتی ہے۔
وزارت داخلہ کی طرح اگر وزارت ماحولیات کے لیے بھی اسی قدر عرق ریزی سے وزیر کا انتخاب کیا جائے تو بہت ممکن ہے کہ منتخب کردہ ابولفضل، اس آفت سے بچاؤ کا راستہ ڈھونڈ نکالے۔
ڈی چوک پہ آتے آتے رہ جانے والے انقلاب کو ٹالنے کے لیے جس قدر منصوبہ بندی کی جاتی ہے، اس سے کہیں کم منصوبہ بندی اور کم عیاری سے دھندھواں کا خاتمہ ممکن ہے۔
ڈی چوک والوں کو تو کبھی بھی کہیں بھی جمع کر کے ان کا ’مکو ٹھپا‘ جا سکتا ہے مگر فطرت بہت ظالم ہوتی ہے۔
جب ٹھان لیتی ہے تو پھر لاکھ چھٹیاں دیں، ہزار بیان جاری کریں، بزور شمشیر بازار بند کریں اور چوکیداروں کے بٹھلوں میں جلتی چھپٹیاں ضبط کر کے ان پہ دفعہ 144 کے پرچے کریں، سموگ وہیں رہتی ہے۔
بھورے رنگ کا یہ بادل، درختوں کی پھننگوں پہ معلق، دروازوں کھڑکیوں کی درزوں سے بل کھاتا گھروں کے اندر گھس آتا ہے اور ہزار پائے کی طرح رینگتا، پھیپھڑوں میں ہوا کی تھیلیوں میں سرائیت کر جاتا ہے۔
کسی عفریت کی طرح زندگی کے دن کم کرتا، ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہوتا ہے۔
سموگ ٹلی نہیں، یہیں ہے۔ کوئی جلوس نکالو اور اسے 48 گھنٹے کی وارننگ دو، کوئی کنٹینر لگاؤ اور اسے شہر میں داخل نہ ہونے دو، ہو جائے تو ’شوٹ ایٹ سائٹ‘ کا حکم دو۔
اس کے بعد سموگ کے ظلم پہ پریس کانفرنس کرو، جی بھر کے کوسو، ڈی جے وی جے بلا کے اس بد بخت کے خلاف جلسہ کرو، بھگاو بھئی اسے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرحدوں پہ خاردار تاریں لگا کے اپنی اپنی سموگ اپنے اپنے ملک میں رکھو، بلکہ ملک میں بھی غور کرو، یہ سموگ مسلمانوں کے آنے سے پہلے تھی یا ماس مچھی کھانے اور گائے وائے ذبح کرنے سے ہوتی ہے۔
یہ بھی سوچو کہ اگر یہ سرحد نہ ہوتی تو شاید سموگ بھی نہ ہوتی۔ اسی دوران، کچھ لوگ چپکے چپکے راوی کے بیٹ میں گھس گھسا کے وہاں بھی کالونیاں کاٹ رہے ہیں۔
بظاہر اس منصوبے میں بہت سے سبز باغ ہیں مگر راوی نہیں ہے۔ ہمارے ایک دوست اپنے جیسے دو ایک آشفتہ سروں کے ساتھ مال روڈ پہ پلے کارڈ لیے کھڑے نظر آتے ہیں۔
گلے میں منکے، لمبی جٹائیں، کانوں کے پیچھے پھول اڑسے، ہاتھ پہ مہندی لگائے، ’راوی بچاؤ‘ کہنے والے دو ایک دیوانے گاڑیوں کے بے ہنگم شور میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ انہیں کوئی نہیں دیکھتا۔ ایسے لوگ ہر زمانے میں ہوتے ہیں، پہلے بھی ہوتے تھے، آج بھی ہوتے ہیں اور اگر ہم بچ گئے تو آنے والے وقتوں میں بھی ہوں گے۔
ان کی بات سن لیں، اپنے جنگل، اپنے دریا، اپنے رکھ بچا لیں، اپنا ماحول بچا لیں۔ لندن کی طرز پہ راوی کو آباد کرنے والوں کو کیا کہا جائے؟
ان کے پاس فزیبلٹی رپورٹ ہے ہمارے پاس صرف الفاظ ہیں۔ ان کے پاس اعدادوشمار ہیں اور ہمارے پاس آنے والی تباہی کی وعید۔
وہ ثابت کر دیں گے کہ ’اجے قیامت نئیں آنی‘ اور ہم قیامت کی نشانیاں دکھاتے رہ جائیں گے۔
کہانی بہت لمبی ہے، آج کا اکبر بہت مصروف ہے اور نورتن مصروف تر، سر سبز شاہ کی سن لیں اپنا لاہور بچا لیں۔ سموگ صرف علامت ہے، مرض گہرا ہے اور پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔