fbpx
خبریں

انڈیا: ’ہندو سوسائٹی‘ میں گھر کیوں خریدا؟ مسلمان جوڑے پر پڑوسیوں کا اعتراض/ اردو ورثہ

شمالی انڈیا میں ایک مسلم جوڑے کو اسلاموفوبک حملوں کا سامنا کرنا پڑا جب ایک پوش علاقے کے رہائشیوں نے ان کے وہاں گھر خریدنے پر احتجاج کیا۔

اطلاعات کے مطابق میاں بیوی جو دونوں ڈاکٹر ہیں کو اتر پردیش کے شہر مرادآباد میں نئے خریدے گئے گھر سے زبردستی نکال دیا گیا کیوں کہ ان کے ہندو پڑوسیوں نے ان کے مذہب کی بنیاد پر ان کے وہاں رہنے پر اعتراض کیا۔

علاقے کے ہندو رہائشیوں کا کہنا تھا کہ مالکان کے سابق مالک، جو ہندو ڈاکٹر ہیں، نے یہ گھر مسلم خاندان کو ان سے مشورہ کیے بغیر بیچا۔

مظاہرے میں شامل ایک شخص نے خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے بات چیت میں کہا کہ ’یہ ایک ہندو علاقہ ہے جہاں چار سے زیادہ ہندو خاندان رہتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی دوسری برادری یہاں رہائش اختیار کرے۔‘

منگل کو شروع ہونے والے اس احتجاج میں علاقے کے ہندو مکینوں نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر سابق مالک سے گھر واپس لینے کا مطالبہ درج تھا۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مظاہرین کا کہنا تھا کہ انہوں نے مسلمان خاندان کے اس سوسائٹی میں گھر لینے کے خلاف ضلعی انتظامیہ اور مقامی پولیس کو شکایت درج کرا دی ہے۔

مظاہرہ کرنے والے ایک شخص نے اخبار ٹائمز آف انڈیا کو بتایا: ’اگر ایک گھر بیچا گیا تو دوسرے بھی بیچے جا سکتے ہیں اور جلد ہی علاقے کی شناخت ختم ہو سکتی ہے۔‘

اشوک باجپئی جو اس گھر کے سابق مالک ہیں، نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ احتجاج کے بعد مسلم جوڑا یہاں منتقل ہونے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہا ہے۔

ڈاکٹر باجپئی نے کہا کہ ’یہ تنازع شہر کے ماحول کو بدل رہا ہے۔ ہمارا مقصد اس خرید و فروخت کے ذریعے کسی قسم کی بدامنی پیدا کرنا نہیں تھا۔‘

انہوں نے نشاندہی کی کہ اس سودے کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں۔

ہندو مکینوں نے ضلعی مجسٹریٹ کے دفتر تک مارچ کیا اور گھر کی فروخت کے خلاف اعتراض دائر کیا۔

مجسٹریٹ انوج کمار سنگھ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم متعلقہ فریقین سے بات کر رہے ہیں اور اس مسئلے کا متفقہ اور دوستانہ حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

اگرچہ مذہبی اقلیتیں انڈیا کی 1.3 ارب آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصہ ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ 2014 میں نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان پر ظلم و ستم میں اضافہ ہوا ہے۔

اپنی سالانہ رپورٹ میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے انڈیا میں ’مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں‘ کا ذکر کیا جن میں مذہبی اقلیتوں پر تشدد اور ان کے گھروں اور عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کے واقعات شامل ہیں۔

انڈین حکومت نے ان الزامات کی تردید کی۔

اگست میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے انڈیا کے عام انتخابات کے دوران 100 سے زائد انتخابی تقاریر میں مسلمان مخالف جملے ادا کیے۔  انہوں نے انتخابات مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل کی جو ایک ریکارڈ ہے۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے