امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے ایرانی اور علاقائی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ ایران نے جمعے کو شام میں موجود اپنے فوجی کمانڈروں اور اہلکاروں کا انخلا شروع کر دیا ہے۔
العربیہ انگلش نے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ شام سے انخلا کرنے والوں میں القدس فورس کے سینیئر رہنما شامل ہیں، جنہیں عراق اور لبنان منتقل کیا گیا۔
مزید برآں علاقائی ذرائع کے مطابق پاسداران انقلاب، ایرانی سفارتی عملے، ان کے خاندانوں اور شہریوں کو بھی منتقل کیا گیا اور انخلا کا عمل مبینہ طور پر جمعے کی صبح شروع ہوا۔
ذرائع نے نیو یارک ٹائمز کو تصدیق کی کہ انخلا کا عمل دمشق میں ایرانی سفارت خانے اور پاسداران انقلاب کے اڈوں تک پھیل گیا۔
کچھ سفارت کار پہلے ہی روانہ ہو چکے ہیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شام میں صدر بشار الاسد اور حکومت مخالف گروپوں کے درمیان تنازع برسوں پرانا ہے۔ گذشتہ ہفتے سے شروع ہونے والی حالیہ کشیدگی کے دوران حکومت مخالف حیات تحریر الشام اور اس کے اتحادی دھڑوں نے کسی بڑی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر ادلب، حلب اور حماۃ شہر پر قبضہ کر لیا ہے اور اب سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ’مقامی دھڑوں نے صوبہ درعا کے مزید علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے، بشمول درعا شہر اور اب وہ صوبے کے 90 فیصد سے زیادہ حصے پر قابض ہیں۔‘
شام میں حکومت مخالف جنگجوؤں نے ہفتے کو جنوبی شہر درعا پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا، جہاں 2011 میں بشارالاسد حکومت کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا تھا۔ یہ ایک ہفتے میں شام کی سرکاری افواج کے ہاتھوں سے نکل جانے والا چوتھا شہر ہے۔
ذرائع نے رپورٹ کیا کہ فوج نے اس معاہدے کے تحت درعا سے انخلا پر اتفاق کیا، جس کے تحت فوجی افسران کو دمشق تک محفوظ راستے کی سہولت دی گئی، جو تقریباً 100 کلومیٹر (60 میل) شمال میں ہے۔
درعا پر قبضہ شامی حکومت کی مخالف فورسز کے اس دعوے کے بعد کیا گیا جس میں انہوں نے جمعے کی رات کو حمص کے مضافات تک پہنچنے کی بات کی، جو ایک اہم شہر ہے اور دارالحکومت کو بحیرہ روم کے ساحل سے جوڑتا ہے۔
حمص پر کنٹرول دمشق کو صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کے ساحل کے ساتھ ساتھ قائم مضبوط ٹھکانوں اور علاقے میں موجود روسی فوجی اڈوں سے الگ کر دے گا۔
یہ خانہ جنگی، جس میں لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور لاکھوں بے گھر ہو گئے، 2011 کے بعد سے کسی رسمی انجام کے بغیر جاری ہے۔ یہ بڑی لڑائی برسوں پہلے اس وقت رک گئی تھی، جب ایران اور روس نے بشار الاسد حکومت کی تمام بڑے شہروں کا کنٹرول حاصل کرنے میں عسکری مدد کی تھی۔
آبزرویٹری کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ہفتے شروع ہونے والی کشیدگی کے بعد سے اب تک کم از کم 826 اموات ہو چکی ہیں، جن میں زیادہ تر جنگجو اور 111 عام شہری بھی شامل ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تشدد سے 280,000 افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔