آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ 17 ویں عالمی اردو کانفرنس 2024 جاری ہے، جس میں کینیڈا، امریکہ، لندن، فرانس، جاپان اور قطر سمیت مختلف ممالک کے ادیب، فنکار، محقق اور فنکار شرکت کر رہے ہیں۔
کانفرنس کے دوسرے روز جمعے کو ’پاکستانی میڈیا، بین الاقوامی میڈیا کے تناظر میں‘، ’اردو نظم میں کراچی کا حصہ‘، ’کے ایم سی 1843 سے 2024 تک‘، ’گورننس فار پیپلز امپاورمنٹ‘، ’تقدیسی ادب کے روشن چراغ‘،’پختون ثقافت و ادب‘، ’دنیا بدلتی خواتین‘، ’سرائیکی ثقافت و ادب‘ سمیت مختلف سیشن منعقد ہوئے۔
’پاکستانی میڈیا، بین الاقوامی میڈیا کے تناظر میں کے عنوان سے منعقد ہونے والے سیشن کی نظامت اویس منگل والا نے کی۔ سیشن میں معروف صحافی اور جیو نیوز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) اظہر عباس، جاوید سومرو ، غضنفر ہاشمی، عاطف توقیر اور کاظم رضا نے بطور سپیکر شرکت کی۔
سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اظہر عباس نے کہا: ’پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کو کچھ لوگ قابل بھروسہ اور کچھ لوگ ناقابل بھروسہ سمجھتے ہیں، جس کے کئی اسباب ہیں۔ سوشل میڈیا کی بھرمار کے باجود پاکستان کا مین سٹریم میڈیا آج بھی عوام میں مقبول ہے۔
’پاکستان میں 17 کروڑ لوگوں تک ٹی وی کی رسائی ہے جب کہ سوشل میڈیا کے سب سے بڑے پلیٹ فارم یو ٹیوب تک سات کروڑ لوگوں کی رسائی ہے۔ تمام سوشل میڈیا مل کر بھی مین سٹریم میڈیا سے نصف رسائی رکھتا ہے۔ زیادہ تر لوگ اب بھی مین سٹریم میڈیا کی خبر کو درست سمجھتے ہیں، کیوں کہ مین سٹریم میڈیا پر خبر مختلف ذرائع سے چیک ہو کر آپ تک پہنچتی ہے، اس لیے لوگ میڈیا کی خبر پر یقین کرتے ہیں۔‘
کانفرنس کے دوران ’گورننس فار پیپلز امپاورمنٹ‘ کے عنوان سے سیشن کی نظامت عاصمہ شیرازی نے کی، جس میں سلمان فاروقی، شکیل درانی، فواد حسن فواد، غازی صلاح الدین اور آصف حیدر شاہ نے بطور سپیکر شرکت کی۔
فواد حسن فواد نے کہا: ’انسان بنیادی طور پر نظم و نصب سے آزاد رہنا چاہتا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی گورننس لائی گئی تو لوگوں کی ترقی کے نام پر آئی۔ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ ٹیکس کی دوبارہ تقسیم کی ناکامی ہے۔ عوام کا سٹاک ایکسچینج سے کوئی تعلق نہیں۔ عوام کا واسطہ تعلیم اور صحت سے ہوتا ہے۔‘
غازی صلاح الدین نے کہا: ’اگر میں یہاں عوام کی نمائندگی کر رہا ہوں تو مجھے چپ رہنا چاہیے۔ پاکستان میں سماجی انصاف کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ماضی میں دنیا کو بدلنے کی لگن والے افراد سول سروس میں جاتے تھے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شکیل درانی نے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’سول سروس کا امتحان پاس کرنا مبارک باد نہیں بلکہ امتحان پاس کرنے کے 30 سال بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص مبارک باد کا حقدار ہے یا نہیں۔ ہماری انتظامیہ اور بیوروکریسی بہت عرصے سے فیل ہے۔
’پاکستان کی بدتر گورننس سے اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان میں عام آدمی مقدمہ بھی درج نہیں کروا سکتا۔ اس ملک میں عدالتیں بھی فیل ہیں۔ پشاور میں میرا اپنا ایک کیس 20 سال سے چل رہا ہے۔ لوگوں کا پارلیمنٹ کے ساتھ تعلق ختم ہوگیا ہے۔ عوام بااختیار تب ہوگی جب ان کو ان کا حق دیا جائے گا۔‘
سابق بیورو کریٹ شکیل درانی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان میں کوئی بھی کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔ وہ قوانین موجود ہیں، جن سے ہر شخص دوسرے کو جوابدہ ہے مگر قانون پر عمل درآمد نہیں۔‘
عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’انڈیا کی ترقی کا اہم کردار وہاں آزاد کمیونیکیشن ہے۔ اگر ہم اب ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انٹرنیٹ کھولنا ہوگا۔ وی پی این بند نہیں کرنے چاہییں۔ عوام کو کمیونیکیشن کی آزادی دیں گے تو عوام بااختیار ہوگی۔‘
کانفرنس کے دوران کئی کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی۔ جن میں مارکیز کے ناول کا ترجمہ ’ملتے ہیں اگست میں‘، نعتیہ مجموعہ ’عشق عقیدہ‘، شعری مجموعہ ’نکلتا ہوا دن‘ اور دیگر کتابیں شامل تھیں۔
بعدازاں وائی ایم سی گراؤنڈ میں انور شعور کی صدارت میں عالمی مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں فاطمہ حسن، احمد نوید، عقیل عباس جعفری، سلمان گیلانی، ناصرہ زبیری، فاضل جمیلی، وکیل انصاری، خالد معین، عاطف توقیر، علی زریون، عمیر نجمی، فریحہ نقوی، بخشن مہرانوی اور دیگر نے اشعار پڑھے۔