چین میں سائنس دانوں نے اشیا کو نظروں سے اوجھل رکھنے کے لیے نیا مواد تیار کیا ہے جو اپنے ماحول کے مطابق رنگ تبدیل کر لیتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ ایجاد ایسا لباس بنانے میں مدد دے سکتی ہے جسے پہن کر انسان ’دکھائی نہ دے۔‘
بہت سے جانوروں میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنی شکل و صورت بدل کر ماحول میں گھل مل جاتے ہیں۔ انسانوں کے وضع کیے گئے طریقے اس عمل کی نقل کرنے کے معاملے میں پیچیدہ ہوتے ہیں اور ماحول کی شناخت، اس کی خصوصیات پر عمل اور اس جیسا نظر آنے کے لیے ظاہری شکل کو بدلنے جیسے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایسے کیموفلاج سسٹمز میں اکثر برقی آلات استعمال ہوتے ہیں جن سے ساخت کی پیچیدگی، محدود استعمال اور زیادہ لاگت جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بات گذشتہ ماہ سائنس ایڈوانسز نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتائی گئی۔
تحقیق میں سائنس دانوں نے نئے مواد کے بارے میں بتایا جو ایک خاص عمل جسے خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت یا ایس اے پی (سیلف ایڈیپٹیو فوٹوکرومز) کہتے ہیں، کے ذریعے اپنے ماحول جیسا ہو جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، بالکل گرگٹ یا آکٹوپس کی طرح۔
جب ایس اے پی موادوں کو مخصوص طول موج والی روشنی کے سامنے رکھا جاتا ہے تو ان کے مالیکیولز اپنی ترتیب بدل لیتے ہیں جس سے مواد کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے۔
یہ ایس اے پی مواد نامیاتی رنگوں اور ایسے مالیکیولز سے بنایا جاتے ہیں جنہیں ڈونر ایکسپٹر سٹین ہاؤس ایڈکٹس کہا جاتا ہےجو روشنی کے اثر سے اپنی ساخت اور کیمیائی خصوصیات تبدیل کر لیتے ہیں۔
تحقیق کار وضاحت کرتے ہیں کہ’ ایس اے پی مواد اندھیرے میں اپنی ابتدائی سیاہ حالت میں ہوتے ہیں اور پس منظر میں موجود منعکس اور منتقل ہونے والی روشنی کے ذریعے کسی دوسرے رنگ میں خودبخود بدل جاتے ہیں۔‘
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ انسانی ساختہ کیموفلاج سسٹمز کے مقابلے میں یہ نئے ایس اے پی مواد زیادہ سادہ، سستے اور استعمال میں آسان ہیں۔
وہ تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں: ’ہم نے اس کام میں مواد کی اندرونی خصوصیت کے طور پر فعال کیموفلاج کے بارے میں بتایا ہے اور خودبخود گھل مل جانے والے فوٹوکرومزم کی بات کی۔‘
تحقیق کاروں نے ان موادو کو جانچنے کے لیے دو تجربات کیے۔
ایک تجربے میں ایس اے پی محلول سے بھرا ہوا شفاف کنٹینر مختلف رنگوں جن میں سرخ، سبز، زرد اور سیاہ شامل ہیں، پلاسٹک کے شفاف ڈبوں میں ڈالا گیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا کہ ایس اے پی محلول نے اپنے اردگرد موجود پلاسٹک کے ڈبوں کے رنگ سے مطابقت پیدا کر لی۔
دوسرے تجربے میں ایس اے پی محلول والے کنٹینر کو ایسے ماحول میں رکھا گیا جہاں پس منظر میں سرخ، سبز یا زرد رنگ موجود تھا۔
سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ ایس اے پی محلول نے میں اپنے اردگرد کے ماحول جیسا ہو جانے کے لیے تقریباً ایک منٹ میں رنگ بدل لیا۔
تحقیق کے مطابق ایس اے پی مواد میں ’کیموفلاج سسٹمز، سمارٹ کوٹنگز، ڈسپلے ڈیوائسز‘ اور یہاں تک کہ ’جعلی سازی روکنے والی ٹیکنالوجی‘ میں استعمال ہونے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔
تحقیق کے سربراہ وانگ ڈونگ شینگ نے چائنا سائنس ڈیلی کو بتایا: ’بنیادی طور پر اس ٹیکنالوجی کو کپڑوں پر استعمال کرنے سے کسی فرد کو عملاً ’دکھائی نہ دینے والا‘ بنایا جا سکتا ہے۔‘
مزید تحقیق میں سائنسدان ایس اے پی مواد کے رنگوں کی حد کو بڑھانے کی امید رکھتے ہیں تاکہ جامنی اور نیلے جیسے رنگ بھی شامل کیے جا سکیں، جو اس مواد کی موجودہ قسم کو استعمال کرتے ہوئے ممکن نہیں۔
ڈاکٹر وانگ کہتے ہیں کہ ’مزید فوٹوکرومک مالیکیولز شامل کر کے یا اس کی ساخت میں تبدیلیاں لا کر ہم زیادہ باریکی کے ساتھ رنگوں میں تمیز اور تیزی سے رنگ بدلنے کی رفتار حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘