پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے اپنے مطالبات کو تسلیم نہ کیے جانے پر 14 نومبر سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
عمران خان، جو اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کے ایکس اور فیس بک اکاؤنٹ پر پانچ دسمبر کو پوسٹ کیے گئے پیغام میں کہا گیا: ’ہم 13 دسمبر کو پشاور میں شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے عظیم الشان اجتماع منعقد کریں گے۔ اس اجتماع میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ وہ دو نکات یعنی انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کی رہائی اور نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں۔
بیان کے مطابق اس کمیٹی میں عمر ایوب خان، علی امین گنڈاپور، صاحبزادہ حامد رضا، سلمان اکرم راجہ اور اسد قیصر شامل ہوں گے، جو سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کریں گے۔
بقول عمران خان: ’اگر ان دو مطالبات کو نہ مانا گیا تو 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جائے گی اور اس تحریک کے نتائج کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔‘
مزید کہا گیا: ’سول نافرمانی کے نتیجے میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ ترسیلات زر کو محدود کریں اور بائیکاٹ مہم چلائیں۔ اس تحریک کے دوسرے مرحلے میں اس سے آگے بھی جائیں گے۔‘
بانی پی ٹی آئی کے پیغام میں سپریم کورٹ سے اسلام آباد میں حالیہ احتجاج کے دوران کریک ڈاؤن کا نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا: ’ملک میں ڈکٹیٹر شپ قائم ہو چکی ہے۔ ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں نہتے سیاسی کارکنان پر گولیاں برسائی گئیں اور پرامن سیاسی کارکنان کو شہید کیا گیا۔ ہمارے سینکڑوں کارکنان لاپتہ ہیں۔ سپریم کورٹ کو اب اس کا نوٹس لے کر اپنا آئینی کردار ادا کرنا چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے پہلے بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سپریم کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا لیکن عدالتوں کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور ملک اس نہج پر پہنچ گیا۔‘
تحریک انصاف کی 24 نومبر کو اسلام آباد کی جانب مارچ کی ’فائنل کال‘ کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں پی ٹی آئی کا مرکزی قافلہ اسلام آباد جانے کے لیے نکلا تھا۔ یہ قافلہ رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے 26 نومبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچا، تاہم بعدازاں سکیورٹی فورسز نے کریک ڈاؤن کرکے علاقے کو پی ٹی آئی کے کارکنوں سے خالی کروا لیا۔
پی ٹی آئی کے مطابق اس احتجاج میں ان کے 12 کارکن قتل ہوئے، تاہم حکومت خصوصاً وفاقی وزارت داخلہ اور اطلاعات ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اسلحہ نہیں تھا اور انہوں نے مظاہرین پر گولیاں نہیں چلائیں۔
اس سے قبل نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی نیب کے ہاتھوں مبینہ کرپشن کیسز میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران آرمی تنصیبات پر حملوں کے ساتھ ساتھ دیگر قومی و نجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔
ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا اور پاکستانی فوج نے اپنا موقف واضح کر رکھا ہے کہ ذمہ داران کو آئین کے مطابق سزا دینا پڑے گی۔