وفاقی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے صوبائی اسمبلی کو ’حقائق مسخ‘ کرنے اور صریح ’جھوٹ پھیلانے‘ کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے اتوار کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’علی امین گنڈا پور نے قومی اداروں کے خلاف بے بنیاد اشتعال انگیز بیانات دیے اور معصوم نوجوانوں کو ایسی ناپسندیدہ سرگرمیوں کے لیے اکسایا۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے ’منصوبہ بندی‘ اور ’مربوط طریقوں‘سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ’اموات کے جعلی پروپیگنڈے‘ کا سہارا لیا۔
24 نومبر کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں پی ٹی آئی کا مرکزی قافلہ اسلام آباد جانے کے لیے نکلا تھا، جن کے مطالبات میں عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی، 26ویں آئینی ترمیم کی واپسی اور قانون کی حکمرانی شامل تھے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے جمعے کو صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اس احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگلی بار ایسا ہوا تو گولیوں کا جواب گولیوں سے دیں گے۔‘
علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ’حق کے لیے گولیاں کھائیں گے اور ہو سکے تو ماریں گے۔ ہمارے بچوں کو شہید کیا گیا اور پھر کہتے ہیں کہ وہ بھاگ گئے، کیا وہ دہشت گرد تھے کہ بھاگ گئے؟‘
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے ایسا ’بے معنی، پرتشدد اور ناکام سرگرمی سے توجہ ہٹانے‘ کے لیے کیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’دارالحکومت کے تمام بڑے ہسپتالوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مبینہ فائرنگ سے ہونے والی اموات کی رپورٹوں کو مسترد کر دیا تاہم پی ٹی آئی کی طرف سے شروع کی گئی اس شیطانی مہم میں مسلسل من گھڑت سوشل میڈیا مہم پرانے اور مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ کلپس کا استعمال کیا جا رہا ہے اور دوسرے دشمن عناصر بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں۔‘
وزارت داخلہ کے مطابق ’سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت اور ان کے آفیشل پیجز پر 10 سے لے کر سینکڑوں بلکہ ہزاروں تک اموات کے متعدد جھوٹے دعوے کیے گئے ہیں۔‘
’تشویشناک بات یہ ہے کہ غیر ملکی میڈیا کے بعض عناصر بھی بغیر کسی مصدقہ ثبوت کے ان جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے۔ حکومتی عہدیداران بشمول وزرا کے ساتھ ساتھ چیف کمشنر اسلام آباد اور پولیس کے اعلیٰ عہدیدار، جو ان فسادات پر قابو پانے کی کارروائیوں میں براہ راست شامل تھے، پہلے ہی بار بار مصدقہ شواہد کے ساتھ اصل صورت حال اور واقعات کی وضاحت کر چکے ہیں۔
’یہ بھی نوٹ کیا جانا چاہیے کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے مہلک ذرائع کا استعمال اگر کیا بھی جاتا تو وہ ریڈ زون کے اندر میڈیا کے کیمروں اور لوگوں کی موجودگی کی بجائے (مارچ کے) راستے کے متعدد مقامات پر کیا جاتا۔‘
بیان کے مطابق ’سکیورٹی فورسز کے افسروں اور جوان نے اپنی جانیں قربان کیں، کئی زخمی ہوئے اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر پاکستان کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے کئی دنوں تک شدید جسمانی مشکلات برداشت کیں۔ اب بھی رینجرز اور پولیس کے کئی جوان شدید زخمی ہیں اور انہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔‘
وزارت داخلہ کے مطابق: ’بدقسمتی سے پی ٹی آئی اور اس کا سوشل میڈیا ونگ پروپیگنڈے کے ذریعے معاشرے میں تفرقہ اور انتشار پیدا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ایسے عناصر خواہ اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک، ان کا متعلقہ قوانین کے تحت ضرور احتساب کیا جائے گا اور کسی کو تقسیم، نفرت اور جھوٹی خبریں پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ’پرتشدد مظاہرین سے 18 خودکار ہتھیاروں سمیت 39 مہلک ہتھیار برآمد ہوئے ہیں اور گرفتار کیے گئے مجرموں میں تین درجن سے زائد غیر ملکی بھی شامل ہیں جن کو اس کام کے لیے اجرت دی گئی تھی۔‘
وفاقی وزارت داخلہ نے مظاہروں کے دوران ہونے والے مادی نقصانات کے حوالے سے ابتدائی اندازوں کے مطابق اربوں روپے نقصان کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
اس کے علاوہ جیل وین سمیت فورسز کی 11 گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
’ان پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے معیشت کو بالواسطہ نقصانات کا تخمینہ 192 ارب روپے یومیہ ہے۔ اس کے علاوہ ضروری حفاظتی اقدامات کرنے پر بھی قابل قدر اخراجات ہوئے۔‘