ایک مقامی حکومتی اہلکار نے ہفتے کو بتایا ہے کہ ضلع کرم میں ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں مزید 13 افراد جان سے گئے جس کے بعد حالیہ تنازعے میں اموات کی تعداد 124 تک پہنچ گئی ہے۔
فریقین فائر بندی کے بار بار دیے گئے احکامات کو نظرانداز کرتے رہے ہیں۔
نئی کشیدگی گذشتہ جمعرات کو اس وقت شروع ہوئی جب پولیس کی حفاظت میں سفر کرنے والے دو الگ الگ قافلے گھات لگا کر کیے گئے حملوں کا نشانہ بنے، جن میں 40 سے زیادہ لوگوں کی جان گئی۔
اس کے بعد 10 دن تک جاری رہنے والی ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے لڑائی نے اس علاقے کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ اہم سڑکیں بند ہیں، موبائل فون سروس معطل ہے، اور اموات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
کرم کے ایک مقامی حکومتی اہلکار نے بتایا کہ گذشتہ دو دن میں مزید 13 افراد کی موت کے بعد جان سے جانے والے لوگوں کی تعداد 124 ہو گئی ہے۔ ہفتے کی صبح تک جاری رہنے والی تازہ جھڑپوں میں 50 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’فریقین کے درمیان شدید عدم اعتماد کی فضا ہے اور کوئی بھی قبیلہ حکومت کے جنگ بندی کے احکامات پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پولیس رپورٹ کرتی ہے کہ بہت سے لوگ علاقے سے نقل مکانی کرنا چاہتے ہیں لیکن بگڑتی ہوئی سکیورٹی کی صورت حال کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو رہا۔‘
خیبرپختونخوا حکومت نے گذشتہ ہفتے کے آخر میں سات دن کی جنگ بندی کا اعلان کیا لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ بدھ کو 10 دن کی جنگ بندی کا ایک اور معاہدہ ہوا لیکن وہ بھی لڑائی کو روکنے میں ناکام رہا۔
پشاور میں ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، نے اموات کی کل تعداد 124 ہونے کی تصدیق کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مزید اموات کا خدشہ ہے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے کیے گئے کسی بھی اقدام کو مکمل طور پر امن بحال کرنے کے لیے نافذ نہیں کیا جا سکا۔‘
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ جولائی سے اکتوبر کے درمیان اس علاقے میں ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں 79 افراد جان سے گئے۔
یہ جھڑپیں عموماً پہاڑی علاقے میں زمین کے تنازعات سے دوبارہ شروع ہو جاتی ہیں جو دو برادریوں کے درمیان موجود تناؤ کو مزید ہوا دیتی ہیں۔
اس سے قبل مقامی انتظامیہ کے عہدے دار نے بتایا تھا کہ کرم میں موبائل نیٹ ورک بدستور معطل ہے اور مرکزی شاہراہ پر ٹریفک بھی بند ہے۔
پولیس کرم میں تشدد کو روکنے کے لیے باقاعدگی سے جدوجہد کرتی رہی ہے، جو 2018 میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے تک نیم خود مختار وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کا حصہ تھا۔
گذشتہ ماہ کرم میں فرقہ وارانہ جھڑپ میں تین خواتین اور دو بچوں سمیت کم از کم 16 افراد مارے گئے تھے۔
اس سے قبل جولائی اور ستمبر میں ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں افراد قتل ہوئے تھے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ جولائی اور اکتوبر کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں میں 79 افراد جان سے گئے۔
خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کی سرحد پر واقع ہے، اس سے قبل ضلع کرم میں 2007 میں شروع ہونے والا ایک بڑا تنازع کئی سالوں تک جاری رہا تھا اور 2011 میں قبائلی عمائدین کی جرگے کی مدد سے اسے ختم کیا گیا تھا۔