وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے حالیہ مہینوں میں ہونے والے احتجاجوں کے پیش نظر خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانے کے امکان کو مسترد کر دیا۔
جمعے کو سرکاری نیوز چینل پی ٹی وی کے پروگرام ’نیوز لائن‘ میں گفتگو کرتے سے گفتگو کرتے ہوئے عطا تارڑ نے کہا کہ ’ابھی ایسا کچھ زیر غور نہیں ہے۔ ہم انہیں مظلوم نہیں بننے دیں گے۔ یہ جارحیت پسند ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی دانشمندانہ فیصلہ ہوگا۔ اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہے۔‘
عطا تارڑ نے مزید کہا کہ ’میں بطور سیاسی کارکن یہ نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی اچھا اور دانشمندانہ فیصلہ ہو گا اور نہ ہی یہ زیر غور ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میں نے ذرائع سے خبریں دیکھی ہیں، میں تمام تر اجلاسوں میں موجود تھا، میں باقاعدہ آپ کو تصدیق کرسکتا ہوں کہ فی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے اور یہ معاملہ زیر غور نہیں ہے۔‘
24 نومبر کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں پی ٹی آئی کا مرکزی قافلہ اسلام آباد جانے کے لیے نکلا تھا، جن کے مطالبات میں عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی، 26ویں آئینی ترمیم کی واپسی اور قانون کی حکمرانی شامل تھے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ قافلہ رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے 26 نومبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچا، تاہم بعدازاں سکیورٹی فورسز نے کریک ڈاؤن کرکے علاقے کو پی ٹی آئی کے کارکنوں سے خالی کروا لیا، جبکہ علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی پیر سوہاوہ کے راستے خیبرپختونخوا کی حدود میں داخل ہوگئے۔
وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے احتجاج کے لیے سرکاری وسائل کا استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ 1200 افراد کی شناخت ہو چکی ہے، جو پرتشدد احتجاج میں ملوث تھے۔‘
بقول عطا تارڑ: ’حکومت کسی بھی مجرم کو نہ بخشنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
پی ٹی آئی کو ’دہشت گرد جماعت‘ قرار دیتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’سیاسی کارکن اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ نہیں کرتے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے نشاندہی کی کہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں افغان شرپسندوں نے بھی شرکت کی۔
اس سے قبل گذشتہ ماہ چار اکتوبر میں بھی علی امین گنڈا پور کی قیادت میں ایک قافلہ احتجاج کے لیے اسلام آباد پہنچا۔ یہ وہی وقت تھا جب وفاقی دارالحکومت میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے سلسلے میں غیر ملکی سربراہان اور وفود موجود تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت نے پی ٹی آئی کے احتجاج کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔
دوسری جانب پانچ اکتوبر کو گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے صوبے میں گورنر راج لگائے جانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ معاملات حد سے بڑھ گئے تو گورنر راج لگانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’جو چیز آئین میں موجود ہو، اس کا آپشن ضرور موجود ہوتا ہے۔‘