محققین نے ایک اے آئی آڈیو جنریٹر تیار کیا ہے، جو ایسی آوازیں تخلیق کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، جو پہلے کبھی نہیں سنی گئیں۔
نیا جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلی جنس ماڈل جس کا نام فگٹو رکھا گیا ہے، کمپیوٹر چپ بنانے والی بڑی کمپنی اینویڈیا (Nvidia) کی ایک ٹیم نے تیار کیا، جس کا مقصد ’سوئس آرمی نائف فار ساؤنڈ‘ تخلیق کرنا تھا۔
اس ٹول سے صارفین سادہ ٹیکسٹ پرامپٹس کا استعمال کرتے ہوئے آڈیو ایڈٹ یا تخلیق کر سکتے ہیں، جیسے کسی گانے سے مخصوص آلے کی آواز نکالنا یا کسی کی آواز کا لہجہ بدلنا۔
اینویڈیا کے رچرڈ کیریس نے ایک بلاگ پوسٹ میں فگٹو کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ کسی بھی دوسرے اے آئی ماڈل سے زیادہ لچکدار ہے، یعنی کام کی نوعیت کے لحاظ سے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور موسیقی میں نئی آوازوں کے ذریعے انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رچرڈ کیریس نے لکھا: ’فگٹو ایک ٹرمپٹ سے بھونکنے یا ایک سیکسوفون سے میاؤں کی آواز بنا سکتا ہے۔ جو کچھ بھی صارفین بیان کر سکتے ہیں، یہ ماڈل اسے تخلیق کر سکتا ہے۔‘
ایک ویڈیو میں اس ٹول کو دکھایا گیا ہے، جس میں فگٹو ایک منفرد آڈیو کا نمونہ تخلیق کرتا ہے، جس میں ایک ٹیکسٹ پرامپٹ دیا گیا۔
کیریس لکھتے ہیں: ’گہری، گرجتی ہوئی بیس کی آوازیں جو وقفے وقفے سے تیز اور واضح ڈیجیٹل آوازوں کے ساتھ ملتی ہیں، جیسے ایک بڑی، ذہین مشین جاگ کر حرکت میں آ رہی ہو۔‘
ایک اور مثال میں فگٹو کو ایک ٹرین کی آواز کو ایک سٹرنگ آرکسٹرا میں تبدیل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
پروڈیوسر، گانوں کے مصنف اور اینویڈیا کے انسپیکشن پروگرام (جو نئی سٹارٹ اپ کمپنیوں کی مدد کرتا ہے) سے منسلک آئیڈو زمیشلانی نے کہا: ’یہ چیز عجیب ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آواز میری تحریک ہے۔ یہ مجھے موسیقی تخلیق کرنے کے لیے متحرک کرتی ہے۔ اس بات کا تصور کہ میں سٹوڈیو میں فوراً نئی آوازیں تخلیق کر سکتا ہوں، لاجواب ہے۔‘
فگٹو کی تیاری میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگا، جس میں اسے تربیت دینے کے لیے لاکھوں آڈیو سیمپلز کی ضرورت تھی۔
آڈیو ٹیکنالوجی میں جنریٹیو اے آئی کی تیز تر ترقی نے یہ تشویش پیدا کی ہے کہ یہ تخلیقی صنعتوں میں کام کرنے والے افراد پر کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔
اس سال کے شروع میں، آسٹریلین ایسوسی ایشن آف وائس ایکٹرز نے ایک پارلیمانی کمیٹی کو خبردار کیا تھا کہ اگر کمپنیاں اے آئی سے چلنے والے متبادل اپناتی ہیں تو مقامی وائس ایکٹرز میں سے تقریباً پانچ ہزار افراد کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
موسیقی کی صنعت نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ جنریٹو اے آئی پروگرامز کس طرح کاپی رائٹ مواد کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں، جس پر ریکارڈنگ انڈسٹری ایسوسی ایشن آف امریکہ نے حال ہی میں اے آئی ٹولز کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں ان پر اپنے آرٹسٹوں کے موسیقی کی نقل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
مزاحمت کے باوجود، کچھ فنکاروں کا ماننا ہے کہ اے آئی موسیقی کا ایک نیا ارتقا ہے، جو اپنے ساتھ نئی تخلیقی امکانات لے کر آئے گا۔
آئیڈو زمیشلانی نے کہا کہ ’موسیقی کی تاریخ ٹیکنالوجی کی بھی تاریخ ہے۔ برقی گٹار کے استعمال نے راک اینڈ رول جیسی نئی اور منفرد موسیقی کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا۔
’جب سیمپلر آیا تو ہپ ہاپ پیدا ہوا۔ اے آئی کے ساتھ ہم موسیقی کا اگلا باب لکھ رہے ہیں۔ ہمارے پاس ایک نیا آلہ ہے۔ موسیقی بنانے کا ایک نیا آلہ – اور یہ بہت دلچسپ ہے۔‘