گذشتہ لگ بھگ ایک ہفتے سے حکومت کے سینیئر وزرا اور عہدیداروں کی طرف سے تواتر سے یہ بیانات آتے رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں کو اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو اس کا بھر پور جواب دیا جائے گا۔
اس دوران یہ بھی کہا گیا کہ ’ریڈ لائن‘ عبور نہیں کرنے دی جائے گی اور سینکڑوں کنٹینرز لگا کر نہ صرف اسلام آباد کے اندر تقریباً تمام مرکزی راستے بند کیے گئے بلکہ دیگر کئی علاقوں، خصوصاً خیبر پختونخوا سے آنے والے راستوں کو بھی کئی مقامات پر بند کر دیا گیا۔
بالآخر یہ سب بے سود ثابت ہوا اور تحریک انصاف کی پشاور سے شروع ہونے والی مرکزی ریلی تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے 26 نومبر کو بعد دوپہر ڈی چوک (اپنی منزل) پہنچ گئی۔
پیر اور منگل کی درمیانی شب جب پی ٹی آئی کی ریلی اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوئی تھی اور اس دوران حکومت کے بقول احتجاج میں شامل افراد کے حملوں میں چار رینجرز اور پولیس اہلکاروں سمیت دیگر افراد کی موت واقع ہوئی تو وزیر داخلہ محسن نقوی نے پیر کو نصف شب کے بعد ایک بار پھر کہا کہ مظاہرین کو کسی صورت اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا اور ضرورت پڑی تو ایسا کرنے کے لیے کرفیو بھی لگایا جا سکتا ہے۔
بعد میں انہوں نے کہا کہ مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو تمام اختیارات دے دیے گئے ہیں لیکن کچھ کارگر ثابت نہ ہوا اور مظاہرین نے حکومت کے نہ تو کسی بیان اور نہ ہی کسی رکاوٹ کو خاطر میں لایا اور جشن مناتے ’ڈی چوک‘ پہنچ گئے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ فوج ڈی چوک اور ریڈ زون میں تعینات ہے لیکن پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اب یہ جگہ اس کے کارکنوں کے کنٹرول میں ہے۔
اتنے سخت انتظامات اور راستوں کی بندش کے باوجود جب پی ٹی آئی کی احتجاجی ریلی اسلام آباد پہنچ گئی تو اب یہ سوالات کیے جا رہے ہیں کہ حکومت کا بھرپور جواب آخر تھا کیا؟ اور ایسی رکاوٹوں کا کیا فائدہ جن سے صرف عام لوگوں ہی کی زندگی متاثر ہوئی۔
لیکن ’بھرپور جواب‘ سے متعلق حکومت کے بیانات اب بھی جاری ہیں اور مظاہرین کے ڈی چوک پہنچنے کے بعد وزیراطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ حکومت جانی نقصان نہیں چاہتی تھی اس لیے صبر کا مظاہرہ کیا گیا لیکن ان کے بقول مظاہرین کو بھرپور جواب ضرور دیا جائے گا۔
اگر گذشتہ چند دنوں کے بیانات دیکھیں تو حکومت تو وہ نہ کر سکی جس کے وہ اعلانات کرتی رہی لیکن پی ٹی آئی اعلان کردہ مقام ’ڈی چوک‘ پر اپنے کارکنوں کو لانے میں کامیاب ہو گئی۔
ڈی چوک پر پہنچنا تو ایک بڑی گیم کا پہلا قدم لگتا ہے، دھرنا شروع ہو گیا ہے اور جلد یا بدیر دونوں فریقین میں مذاکرات بھی متوقع ہیں لیکن ان حالات میں کسی طرح کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔
’ریڈ لائن‘ کو عبور کرتے ہوئے تحریک انصاف کی ریلی کی ’ڈی چوک‘ آمد اور دھرنے کے آغاز کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں کے نہ صرف حوصلے بڑھے ہوں گے بلکہ ممکنہ بات چیت کے لیے ان کی پوزیشن بھی مضبوط ہوئی ہے۔
اب بھرپور جواب کس کا ہو گا؟ اس کا اندازہ محض بیانات سے نہیں عملی اقدامات سے ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔