پی ٹی آئی کی احتجاجی کال کے بعد یہاں بند شہر، بند سڑکوں، بند بازار اور بند دکانوں میں اگر کوئی کُھلا پھرا دیکھنے کو ملتا ہے تو وہ اکا دکا مجھ جیسا صحافی ہے، کچھ آوارہ جانور ہیں یا پھر بے شمار پولیس والے۔
ایک ڈائیلاگ تھا سہیل اصغر مرحوم کا ’بابا یہ ہماری زمین ہے، ہمارے حکم کے بغیر یہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی۔‘ اسلام آباد میں رکاوٹ در رکاوٹ گھومتے ہوئے یہ فقرہ بہت یاد آیا۔ وہ سڑکیں بھی بند تھیں جو خود آگے جا کے بند ہو جاتی ہیں، کھلی سڑک کا تو حساب ہی کوئی نہیں۔
اتوار بازار بھی ظاہری بات ہے بند تھے۔ ایک بہت نستعلیق قسم کے بزرگ ملے جنہوں نے مائیک پہ بات کرنے سے انکار کیا لیکن آف ایئر ایسی طبیعت سے بے نقط سنائیں کہ وہ والی آنٹی یاد آ گئیں ’یہ سب مل کے ہمیں ۔۔۔ بنا رہے ہیں‘ اسی طرح کا حاصل کلام تھا۔
پولیس والے بے چارے سڑک کے کنارے ٹھنڈے فٹ پاتھوں پہ بیٹھے تھے، کچھ کنٹینروں کے سامنے ڈھالیں بچھائے دھوپ سینک رہے تھے اور مطلوبہ صارفین کے انتظار میں تھے۔
ایک نائی بے چارہ سڑک کنارے کرسی لگائے کٹنگ کر رہا تھا، اس سے پوچھا کہ بتائیے کیا صورت حال ہے کاروبار کی، کُل ملا کے تین گاہک آئے تھے اور وہ خود دکان بڑھانے کے چکر میں تھا۔
ہوٹل والے سے بات کی تو پتہ لگا کہ سادہ گاہک صبح سے نایاب ہیں بس سونف خوشبو والا ہی مال چل رہا ہے مسلسل، وردیاں ہیں اور پراٹھے ہیں۔ کہنے لگے ’پچھلی مرتبہ یہیں پاس میں آنسو گیس چلی تو ہمیں بھاگنے کا بھی موقع نہیں ملا، کچھ سامان پیک نہیں کر سکے، یہیں رہ گیا، واپس آئے تو سامان بھی غائب تھا۔ پوچھا کہ اب کے تیاری ہے کچھ بھاگنے کی؟ جواب وہی تھا جو 70 سال سے مجھ سمیت ہر بے بس پاکستانی کا ہوتا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک ریڑھی والے بابا جی بیٹھے تھے ریڑھی چھوڑ کے سڑک پہ، سر پکڑا ہوا تھا، پوچھا بات کریں گے، کہنے لگے میں کیا بات کروں گا، چکر آ رہے ہیں۔ یہاں ان سے مکالمہ ختم ہو گیا لیکن یہی جملہ بہت کافی تھا، کم نہ زیادہ ۔۔۔ سبھی کچھ تھا اس میں۔
فہد منظر میرے ساتھ تھے، شوٹ ختم ہوا تو واپس جاتے جاتے ایک جگہ رُک گئے، میں چلتا رہا، مڑ کے دیکھا تو کچھ ریکارڈ کر رہے تھے، پوچھا کیا ہوا، کہنے لگے ’حسنین بھائی یہ دیکھیں، کیا شاٹ آیا ہے، سپریم کورٹ کو جانے کا بورڈ، اس کے نیچے یہ پارلیمنٹ ہاؤس کا بورڈ اس کے نیچے ایوان صدر کا، سامنے کھڑے باوری رینجرز اور ان کے ساتھ قطار اندر قطار لگے کنٹینر ایسے ٹائٹ جڑے ہوئے کہ بیچ میں کوئی ٹوتھ پک تک نہیں گھسا سکتا۔ سڑک کا بھی سانس بند کیا ہوا ہے۔‘
آج صبح شہر اسلام آباد میں ایئر کوالٹی انڈیکس 60 تھا، کسی جگہ بدترین تھا تو وہ 140 تک گیا یعنی مجموعی طور پہ شہر کا مطلع صاف تھا اور سانس لی جاتی تھی لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مقطع کیسا ہو گا؟
کافی کچھ سخن گسترانہ* متوقع ہے جس کے بعد ظاہری بات ہے آب و ہوا بھی خراب ہو گی اور عوام الناس کی طبیعتیں بھی۔
کلوزنگ ایک فارسی غزل پہ کرتے ہیں؛
شهر خالی جاده خالی کوچه خالی خانه خالی
جام خالی سفره خالی ساغر و پیمانه خالی
کوچ کرده دسته دسته آشنایان عندلیبان
باغ خالی باغچه خالی شاخه خالی لانه خالی
*سخن گسترانہ مطلب بس تکلیف دہ اور ایسا کہ جو نہیں ہونا چاہیے۔